Print this page

مودی سرکار کی نجکاری پالیسی کے خلاف ڈیفنس ملازمین نے ہڑتال کا اعلان کردیا

دہلی:بھارت میں مودی سرکار کی نجکاری پالیسی کے خلاف ڈیفنس ملازمین نے ہڑتال کا اعلان کردیا ہے جن میں وہ تنظیمیں بھی شامل ہیں جو بنیادی طور پر حکمران جماعت بی جے پی، کانگریس اوربائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی ذیلی تنظیمیں ہیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق کسانوں کے بعد ڈیفنس ملازمین نے 23 تا 25 جنوری 2019 کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے جس میں اندازاً چارلاکھ افراد کی شرکت متوقع ہے۔ ہڑتال کا اعلان ڈیفنس سول ورکرز کی تین رجسٹرڈ یونینوں نے کیا ہے۔بھارت میں ڈیفنس فیڈریشن نے بھی اس سے قبل ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا تھا مگربعض حکومتی یقین دہانیوں کے نتیجے میں اعلان کو واپس لے لیا گیا تھا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ملازمین کا مو¿قف ہے کہ جس طرح مودی سرکارڈیفنس سیکٹر کو نجی کمپنیوں کے سپرد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس کی وجہ سے تمام ملازمین کو اپنی ملازمتیں شدید خطرات سے دوچار نظرآرہی ہیں۔بھارتی اقتصادی ماہرین یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ملک کی 41 آرڈی ننس فیکٹریوں میں سے 21 بدترین معاشی بحران کا شکار ہیں۔بھارت میں ہڑتال کی کال دینے والی تنظیموں کا مو¿قف ہے کہ مودی سرکار نے ’میک ان انڈیا ان ڈیفنس‘ کے خوبصورت نعرے پر بھارت کی دفاعی صلاحیت کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق مودی سرکار براہ راست اس صورتحال کی اس لیے ذمہ دار ہے کہ ایک جانب اس نے آرڈی ننس فیکٹریوں کے آرڈرز میں کمی کی اور دوسری جانب 14 ای ایم ای ورکشاپس کو بھی بند کردیا۔بی جے پی کی ذیلی تنظیم ’بھارتی پرتشا مزدور سنگھ‘ کے رہنما سادھو سنگھ نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ حکومت ہماری نہیں سن رہی ہے تو ہم کیا کریں آن کا کہنا ہے کہ ہمیں تو مزدوروں کی سننی پڑے گی نہیں تو لوگ برا بھلا کہیں گے۔سادھو سنگھ نے کہا کہ سب کہتے ہیں کہ حکومت ہماری ہے لیکن وہ ہماری تو سن نہیں رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ مرتبہ ہم نے حکومتی یقین دہانی پر ہڑتال کا کیا گیا اعلان واپس لیا تھا۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ کہا گیا تھا کہ ڈیفنس سویلین میں کٹوتی نہیں کریں گے مگر 14 ای ایم ای بند کر دی گئیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آرڈی ننس کا آرڈرمروجہ طریقہ کار سے واپس نہیں کیا گیا لہذا اب ہڑتال کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔دوسری طرف آل انڈیا ڈیفنس ایمپلائز فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری سی کمار نے کہا کہ مودی حکومت کا ’میک ان انڈیا ان ڈیفنس‘ کا نعرہ 100 فیصد جھوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جو کر رہے تھے اسے بھی مودی سرکار باہر کے لوگوں کو دے رہی ہے۔سی کمار کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ 40 سال سے اس فیلڈ میں ہیں اور پہلی مرتبہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ 21 ا?رڈی ننس فیکٹریوں کے پاس کام ہی نہیں ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرکاریہاں تیار ہونے والی مصنوعات بھی باہر کے لوگوں کو تیاری کے لیے دے رہی ہے۔آل انڈیا ڈیفنس ایمپلائز فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری سی کمار نے مطالبہ کیا کہ سول ڈیفنس ملازمین کے لیے جو امتیازی سلوک والی پنشن اسکیم متعارف کرائی گئی اسے فوری ختم کیا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے مستقبل غیر محفوظ ہوگیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مودی سرکارصرف کسان مخالف ہی نہیں ہے بلکہ ڈیفنس سیکٹر مخالف بھی ہے۔مختلف آرڈی ننس فیکٹریوں میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھنے والے ایس ایم پاٹھک کا کہنا ہے کہ روزگار دینے کے بجائے مودی حکومت برسر روزگار لوگوں کا بھی روزگار چھین رہی ہے، ایک جانب باہر سے کام کرایا جارہا ہے اور دوسری طرف رشوت خوری کی وجہ سے نجی کمپنیوں کو فروغ دیا جارہا ہے،جنوری میں بڑی ہڑتال کرنے کا جو اعلان کیا گیا ہے وہ بے حد ضروری ہے۔مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی مودی سرکارپرکڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ بی جے پی کی حکومتیں جن ریاستوں میں قائم ہوئی ہیں وہاں اب تک 12 ہزار کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ ان کا سوال تھا کہ ا?خر یہ خودکشیاں کیوں ہوئیں؟مدنی پور میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی حکومتیں اصل مسائل کی جانب توجہ دینے کے بجائے جذباتی اور مذہبی سیاست کے ذریعے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کررہی ہیں۔وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ قرض کی ادائیگیاں نہ کرسکنے اور اناج کے مناسب دام نہ ملنے کی وجہ سے مہاراشترا، مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتس گڑھ کے کسانوں کی بڑی تعداد نے خودکشی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہزاروں کسانوں نے 29 نومبر کو دہلی میں احتجاج کیا جس میں ان کی جانب سے قرضہ معافی کا مطالبہ کیا گیا مگر حکومت تاحال خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بھارت کے دارالحکومت دہلی میں 29 نومبر کو ہزاروں کسانوں نے مودی سرکار کے خلاف بھرپور احتجاج کیا اور شدید نعرے بازی کی تھی۔سیاسی مبصرین کے مطابق مودی سرکار فی الحال اصل عوامی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے شدت پسندوں کو جذباتی طور پر مشتعل کرکے اپنا ووٹ بینک بڑھانے کی حکمت عملی پر گامزن ہے جس کی وجہ سے وہاں نہ صرف مذہبی اقلیتیں خوف و ہراس کا شکار ہیں بلکہ پرامن اور سنجیدہ ہندو بھی انتہائی خوفزدہ ہیں کیونکہ کسی بھی فساد کی صورت میں نقصان ان کے شہر کا ہوتا ہے۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں