Print this page

آئی ایم ایف کا پاکستان کی معیشت پراہم بیان آگیا

واشنگٹن: انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے محکمہ مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا کے ڈائریکٹر جہاد آزور نے کہا کہ پاکستانی معیشت مستقبل میں بڑے پیمانے پر سست روی کا شکار ہو گی اور یہ خطے کی مجموعی معاشی ترقی کی شرح پر بوجھ بن جائے گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان اور پاکستان(MENAP) کے معاشی منظر نامے کے حوالے سے گفتگو میں عالمی معاشی صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مذکورہ خطوں میں پالیسی سازی کی کوششیں مزید تیز تر کی جائیں۔ اس خطے کے تیل کے درآمد کنندگان کے لیے شرح نمو 2018 میں 4.2 فیصد کے مقابلے میں کم ہو کر 3.6فیصد تک ہونے کا امکان ہے جس کی وجہ کمزور عالمی معاشی ماحول ہے۔ جہاد آزور نے کہا کہ تیل درآمد کرنے والے متعدد ممالک کے لیے قرض کی بڑھتی ہوئی شرح بڑے پیمانے پر اقتصادی استحکام کیلئے چیلنج بن چکی ہے اور بھاری قرض کے سبب صحت، تعلیم، انفرا اسٹرکچر اور سماجی پروگراموں میں اہم سرمایہ کاری کے لیے مالیاتی خلا محدود ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے کہا کہ بجٹ پر پڑنے والا یہ دباؤ اصلاحات کے ساتھ ساتھ درمیانی شرح نمو میں تیزی سے اضافے کے متقاضی ہیں، مطلب ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے کاروباری ماحول اور انتظامی امور کو بہتر بنایا جائے اور مزدوروں کے لیے مارکیٹ میں لچک اور مارکیٹ میں مسابقت کو مضبوط کیا جا سکے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے ڈائریکٹر کے مطابق سست ہوتی عالمی معاشی شرح نمو اور تجارت کے ساتھ ساتھ عالمی سیاسی تناؤ اور دیگر بیرونی دھچکوں کے سبب اس خطے کو معاشی طور پر چیلنجز کا سامنا ہے، یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ فوری طور پر ایسی اصلاحات پر عملدرآمد کیا جائے جن سے اقتصادی لچک اور محفوظ مجموعی شرح نمو حاصل کی جا سکے۔ اس حوالے سے ایک رپورٹ میں آئی ایم ایف نے بڑھتے ہوئے عالمی قرض پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ عالمی قرض اب 164ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو عالمی جی ڈی پی کا 225فیصد ہے اور خبردار کیا کہ دنیا بھر کے عوام اور نجی شعبے 2008 کے مالیاتی بحران کے مقابلے میں زیادہ قرض میں ڈوبے ہوئے ہوں گے جہاں اس وقت عالمی قرض اپنی بلند ترین شرح پر تھا جو مجموعی جی ڈی پی کا 213فیصد تھا۔ جہاں عالمی قرضوں میں اضافے کی وجہ سے تیزی سے ترقی کرتی معییشتیں ہیں، وہیں گزشتہ دس سال میں چین جیسی تیزی سے ابھرتی ہوئی معاشی طاقتیں بھی اس اضافے کی ذمے دار ہیں جہاں 2007 سے اب تک صرف چین عالمی قرض میں کلُ 43فیصد اضافے کی وجہ بنا۔

پرنٹ یا ایمیل کریں