Print this page

ڈرے سہمے سینکڑوں تعلیمی ادارے اب مقدمات کا بھی سامنا کریں گے

ایمز ٹی وی (اسپیشل رپورٹ) باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد صوبے خیبر پختون خوا کے تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات جاری ہیں۔ سکیورٹی کے ناقص انتظامات کے باعث 683 تعلیمی اداروں کے سربراہان کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ 

پولیس انتظامیہ کے بقول صوبے کے بیشتر تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کے مناسب انتظامات نہیں تھے، جس کی وجہ سے ان کے خلاف یہ اقدامات کیے گئے۔ جن اداروں کے سربراہان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے، اُن میں نجی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے علاوہ بعض سرکاری تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں۔ عام لوگوں نے اس اقدام کو سراہا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس قسم کی سختی اور فوری کارروائیوں سے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ حفاظتی اقدامات کی طرف بہتر طور پر توجہ دینا شروع کرے گی۔

پشاور میں واقع رنگ روڈ کے رہائشیوں کاکہناہے کہ وہ شروع ہی سے سکول کی سکیورٹی سے مطمئن نہیں تھے:’’اکثر سکول کے مین گیٹ پر کوئی چوکیدار نہیں ہوتا تھا، اس بارے میں ہم انتظامیہ کو کئی مرتبہ کمپلینٹ بھی کر چکے تھے لیکن اس کا نوٹس نہیں لیا گیا۔ حکومت کی طرف سے اس اقدام کے بعد اب یقینی طور پر سکیورٹی کے بہتر انتظامات کیے جائیں گے۔‘‘ ان کایہ بھی خیال ہے کہ زیادہ تر نجی سکولوں میں سکیورٹی کی طرف خاص توجہ نہیں دی جاتی:’’صرف کیمرے اور خاردار تاروں سے بچے محفوظ نہیں ہو جاتے، اس کے لیے باقاعدہ سکیورٹی گارڈز کی ضرورت ہے۔‘‘

 

والدین کی شکایات اور باچاخان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد صوبے بھر کے تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا گیا۔ انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا ناصر خان درانی کے احکامات پر ناقص اور غیر تسلی بخش سکیورٹی انتظامات کی بناء پر 683 اداروں کے خلاف مختلف تھانوں میں ایف آئی آر درج کرا دی گئی ہے۔ ان اداروں میں 23 کالجز اور پشاور میں قائم ایک نجی یونیورسٹی بھی شامل ہے۔

ایک اعلیٰ پولیس اہلکار انسپکٹر عزیز خان کاکہناہے کہ ایسا کرنے کی بہت ضرورت تھی کیونکہ تمام تعلیمی اداروں کو پہلے ہی سے حفاظتی اقدامات کے بارے میں احکامات جاری کر دیے گئے تھے اور باقاعدہ طور پر رہنما اصول بھی فراہم کیے گئے تھے لیکن بدقسمتی سے بہت سے اداروں نے ان گائیڈ لائنز کو نظرانداز کیا تھا، جس کی وجہ سے ان کے خلاف یہ ایکشن لیا گیا۔ وہ مزید کہتے ہیں:’’صوبے بھر میں مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جوکہ تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کا جائزہ لے رہی ہیں، ابتدائی طور پر ہم صرف اداروں کے مالکان کے خلاف ایف آئی آر درج کر رہے ہیں لیکن اگر مستقبل میں بھی سکیورٹی کے انتظامات بہتر نہ کیے گئے تو پھر ان اداروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ تمام سکولوں اور خاص طور پر نجی سکولوں کو یہ ہدایت جاری کی گئی تھی کہ وہ دیواروں کی اونچائی، خاردار تار، باڑ، سکیورٹی کیمرے اور سکیورٹی اہلکاروں کی تقرری کو یقینی بنائیں لیکن بیشتر تعلیمی اداروں نے ان ہدایات پر عمل نہیں کیا گوکہ یہ ان کے اپنے ہی تخفظ کے لیے ہیں۔

 

پشاور میں یونیورسٹی روڈ پر قائم ایک نجی سکول کے مالک نے اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ ایک طرف صوبائی حکومت پرائیویٹ سکولوں کی فیسیں کم کرنے کےمنصوبے بنا رہی ہے جبکہ دوسری طرف اس قسم کے احکامات جاری ہو رہے ہیں، ان حالات میں پرائیویٹ سکول چلانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’ہر شہری کے جان اور مال کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، اس مد میں حکومت کو سنجیدگی سے مثبت اقدامات کرنے چاہییں نہ کہ تمام تر بوجھ عوام پر ہی ڈال دیا جائے۔‘‘

سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس عباس مجید خان مروت کے مطابق ان سکولوں کے خلاف ایس وی ای پی ایکٹ مجریہ 2015ء کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں پولیس کی اتنی نفری نہیں ہے کہ ہر سکول کو سکیورٹی فراہم کی جائے، لہٰذا تعلیمی اداروں کو یہ احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ وہ خود حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائیں۔ وہ مزید کہتے ہیں:’’یہ فیصلہ بہت سوچ بچار کے بعد کیا گیا ہے، اگر کوئی ادارہ اس پر عمل نہیں کرتا تو ہمارا اگلا قدم ان سکولوں اور کالجز کو سیل کرنے تک بھی جا سکتا ہے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کے خلاف اس قسم کی ایف آئی آرز اور مقدمے جاری رہیں گے، اس کے علاوہ پختونخوا پولیس نے گشتی دستے، اینٹی ٹیررسٹ سکواڈ اور ایمرجنسی ریسپانس فورس کے دستوں کی مختلف پوائنٹس پر ڈیوٹیاں لگائی ہیں، جہاں سے وہ کسی بھی طرح کے ناخوشگوار واقعے یا دہشت گردی کے کسی ممکنہ حملے کا مقابلہ کر سکتے ہیں تاہم پھر بھی تمام اداروں میں بنیادی سکیورٹی کو یقینی بنانا وہاں کی انتظامیہ کی اپنی ذمے داری ہے۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Media