کراچی: پرائیوٹ اسکولز ایسوسی ایشنز کا ایک مشترکہ ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں سندھ بلڈنگ کنڑول اتھارٹی کی جانب سے 21 نومبر 2018کے شائع شدہ پبلک نوٹس پر تفصیلی غور کیا گیا، جس میں رہائشی علاقوں میں قائم اسکولوں کو دسمبر 2018میں سردیوں کی چھٹیوں کے دوران صرف اسکولوں کے لیے مخصوص پلاٹس یا کمرشل عمارتوں میں منتقل کرنے کا کہاگیا ہے۔اجلاس میں پرائیویٹ اسکولزمینجمنٹ ایسوسی ایشن، آل پرائیویٹ اسکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن سندھ، پیک پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن سندھ اور آ ل سندھ پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے مرکز ی عہدے داروں نے شرکت کی
اجلاس میں اتفاقِ رائے سے 9ممبران پر مشتمل ایک ایکشن کمیٹی ’’آل پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشنز ایکشن کمیٹی ‘‘کے نام سے تشکیل دی گئی ہے جن میں
شرف الزماں (چیرمین پرائیویٹ اسکو لزمینجمنٹ ایسوسی ایشن (PSMA
طارق شاہ (چیرمین آل پرائیویٹ اسکولزمینجمنٹ ایسوسی ایشن سندھ)،شہزاد اختر (صدر پیک پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن سندھ)حیدر علی (چیر مین آل سندھ پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن سندھ)، محمد عمر (پرائیویٹ اسکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن)،عتیق نصیر (آل پرائیویٹ اسکولزمینجمنٹ ایسوسی ایشن سندھ)، نصیر الدین (پیک پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن،سندھ)،محمد انور (آل سندھ پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن سندھ)،محمد آصف خان(ہیپی پیلس گروپ آف اسکولز) شامل ہیں۔
ایکشن کمیٹی میں شامل پہلے چار افراد کو کمیٹی کا ترجمان مقرر کیاگیا،جن میں جناب شرف الزماں، جناب طارق شاہ ،جناب شہزاد اختر اور جناب حیدر علی شامل ہیں۔
اجلاس میں اس بات کو باور کرایا گیا کہ تمام رجسٹرڈ پرائیویٹ اسکولز حکومتِ سندھ کی منظوری سے گذشتہ 35سالوں سے تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔صوبہ سندھ میں14000 سے زائد پرائیویٹ اسکولز تقریبا33لاکھ بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔حکومتی ذمہ داری میں یہ اسکول شہری علاقوں میں75% سے زیادہ تعلیمی بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔
اجلاس میں مزید کہا گیا کہ رجسٹرڈ پرائیویٹ اسکولز نہ تجاوزات میں شامل ہیں ، نہ ہی ناجائز قابضین ہیں اور نہ ہی سرکاری املاک پر قابض ہیں،یہ تمام اسکول اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے مذکورہ اشتہار سے ہزاروں پرائیویٹ اسکولز میں شدید تحفظات اور بے چینی پائی جارہی ہے۔ اس کے ممکنہ نقصانات اور اثرات شاید انتظامیہ ،اساتذہ، بچوں، والدین اور سول سوسائٹی سمیت کسی کے لیے بھی قابلِ برداشت نہیں ہوں گے۔
اب تک کے تمام رجسٹرڈ اسکولز پر بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے کسی چھپے ہوئے قانون یا جزوی شقوں کی آڑ میں کمرشلائزیشن کو لاگو نہیں کرنے دیا جائے گا۔1985کے بعد سے KDA یا حکومت سندھ کی جانب سے کوئی رفاہی پلاٹ دیا ہی نہیں گیا۔جبکہ آبادی اور تعلیمی ضرورت میں کئی سو گنا اضافے کے سبب مقامی ضرورت کے تحت پرائیویٹ اسکولز قائم ہوتے چلے گئے
بین الاقوامی معاہدوں اور موجودہ تعلیمی صورت حال کی روشنی میں پاکستان یا صوبہ سند اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ لاکھوں بچوں کوتعلیم سے دور کر دیا جائے۔ مقامی علاقوں سے اسکول دور دراز منتقل ہونے سے آمد و رفت کے بے شمار مسائل جنم لیں گے۔والدین کواضافی اخراجات اور اضافی وقت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
ہزاروں پرائیویٹ اسکولز سے لاکھوں افراد کا روزگاز بھی وابستہ ہے۔تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ یہ بہت بڑا معاشی مسئلہ بھی ہے۔ تمام علاقائی سماجی و تعلیمی تنظیموں کو بھی باہمی رابطے میں رکھا جائے گا۔جس کے لئے وقتا فوقتاََ پروگرام منعقد کئے جائیں گے۔
اتوار 2دسمبر بوقت11بجے دن Bellagio banquet بالمقابل کریم آباد جماعت خانہ ،فیڈرل بی ایریا کراچی میں اسکول سربراہان کا اجلاس منعقد کیا جائے گا۔جس میں ہونے والی پیش رفت اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔