جمعرات, 25 اپریل 2024


طلبا اوراساتذہ کی ڈرگ اسکریننگ کا فیصلہ

اسلام آباد: حکومت نے تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے طلبا اور اساتذہ کی ڈرگ اسکر یننگ کا فیصلہ کرلیا۔

 وفاقی وزیر برائے انسداد منشیات اور سیفران شہریار خان آفریدی نے کہا کہ حکومت نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبا سمیت تدریسی اور غیرتدریسی عملے کی منشیات اسکریننگ یقینی بنانے کے لیے مشاورت کررہی ہے۔

نجی اسکولوں کے مالکان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہریار خان آفریدی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے وژن کے تحت حکومت منشیات سے پاک پاکستان کے لیے اقدامات اٹھارہی ہے۔

شہریار خان آفریدی نے کہا کہ ’اساتذہ کو نئی نسل کی تعلیم کے لیے تقرر کیا جاتا ہے، ماں کی گود کے بعد اسکول وہ ادارے ہیں جہاں بچوں کو تعلیم اور تربیت دی جاتی ہے اور انہیں کارآمد شہری بنایا جاتا ہے‘۔

انہوں نے اسکول مالکان کو اپنے اداروں میں منشیات پر قابو پانے کے بہتر طریقے استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

علاوہ ازیں شہریار خان آفریدی نے مزید کہا کہ ’ہم نے ڈھائی سو سے زائد ذرائع بروئے کار لا کر بین الاقوامی منشیات اور دہشت گردوں کا ڈیٹا بیس تیار کیا ہے، ہمیں منشیات کی تجارت روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے ہوں گے‘۔

وزیر انسداد منشیات نے کہا کہ نجی اسکولوں کو کارپوریٹ سوشل ریسپونسبیلیٹی (سی ایس آر) کے تحت اسکولوں میں منشیات کے عادی افراد کے علاج کے لیے منشیات بحالی مراکز کے قیام میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم منشیات کا شکار ہونے والے طلبا کو تعلیمی اداروں سے بے دخل کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کریں گے، اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) نے اسلام آباد، کراچی اور سکھر میں بحالی مراکز قائم کیے ہیں‘۔

شہریار خان آفریدی نے کہا کہ ’ہم ایک نیا قانون تشکیل دے رہے ہیں جس کے تحت سرکاری ہسپتالوں میں بھی منشیات بحالی کے مراکز قائم کیے جائیں گے‘۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ’گزشتہ برس ایک سروے سے علم ہوا کہ اسلام آباد کے اسکولوں میں 75 فیصد طالبات اور 45 فیصد طالب علم منشیات استعمال کرتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ 3 برس قبل غیرسرکاری تنظیم کی جانب سے مرتب اور متعلقہ کمیٹیوں کے ساتھ شیئر کی گئی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وفاقی دارالحکومت کے نجی اسکولوں کے 44 سے 53 فیصد طلبا مختلف اقسام کے نشے کے عادی ہیں۔

تاہم اس وقت کے وزیر برائے کیپٹل ایڈمنسٹریشن اور ڈیولپمنٹ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور ان کے ماتحت تعلیمی اداروں نے فوری طور پر اس رپورٹ کو مسترد کردیا تھا۔

علاوہ ازیں نجی اسکولوں نے بھی اس رپورٹ کو مشکوک قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا کیونکہ تحقیق کے طریقہ کار اور ڈیٹا کو کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا تھا۔

گزشتہ برس تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثارنے نوٹس لیا تھا۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment