Print this page

سارک یونیورسٹی دہلی میں پاکستانیوں سے نارواں سلوک

سارک کے آٹھ ممالک کے اشتراک سے نئی دہلی میں قائم ساؤتھ ایشین یونیورسٹی (ایس اے یو) میں مالی بے قاعدگیاں اوربے ضابطگیاں عروج پر ہیں اور بھارت یونیورسٹی کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کررہا ہے۔

کروڑوں روپے پاکستان کی جانب سے فراہم کرنے کے باوجود پاکستانی طلبہ کی تعداد انتہائی کم جبکہ فیکلٹی میں ایک استاد بھی پاکستانی نہیں، صرف ایک غیرتدریسی ملازم پاکستانی ہے جسے مستقل ملازم ہونے کے باوجود 24 گھنٹے میں واپس پاکستان بھیج دیا گیا تھا۔

بھارت میں جاری ہندواتوا لہر کے باعث بھارتی جنتا پارٹی کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی نے یونیورسٹی میں اپنی شاخ کھول لی ہے جس کی وجہ سے مسلمان بالخصوص پاکستانی طلبہ کو شدید مشکلات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے اور بعض اوقات تو ان کو نماز کی ادائیگی سے بھی روک دیا جاتا ہے۔

گزشتہ 10 برسوں کے دوران صرف 45 پاکستانی طلبہ گریجویٹ ہوسکے۔ 2017ء میں یونیورسٹی میں پاکستانی طلبہ کو داخلے دینے کے باوجود ان کو ویزے نہیں دیئے گئے جس کی وجہ سے پاکستانی طلبہ کی تعداد صرف 11 رہ گئی ہے۔

طلباء نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے باعث پچھلے مہینے سے یونیورسٹی انتظامیہ انہیں اپنے اپنے ملکوں کو واپس جانے پر مجبور کررہی ہے اور ان کی صحت کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی نے ان سے کہا ہے کہ وہ اپنا انتظام خود کریں ، ریٹرن ٹکٹ خریدیں جو عام قیمت سے کم سے کم چار یا پانچ گنا زیادہ قیمت پر دستیاب ہیں۔

ہوائی اڈے جانے تک سواری کا انتظام خود کریں جبکہ اس وقت کیمپس میں 22 کے قریب نیپالی ،11 پاکستانی، 9 سری لنکن ، 75 افغانی اور 60 بنگلہ دیشی طلباء موجود ہیں اور ان میں سے بیشتر نے اس صورتحال کو قابو میں کرنے تک قیام کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ اور (قائم مقام) صدر ، اے وی ایس ایس سے اپیل بھی کی ہے مگر انھیں کوئی جواب نہیں ملا ہے۔

پاکستان کی طرف سے وزیر خارجہ خورشید قصوری نے دستخط کئے جس میں بھارت نے یقین دلایا تھا کہ اس میں کام کرنے والے اسٹاف اور طلبہ کی ضرورت کے مطابق بلاامتیاز ویزوں کا اجراء کرے گا لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے ۔

پاکستانی طلبہ اور اسٹاف کے لئے ویزوں کا خیال نہیں رکھا جاتا، 10 فیصد کوٹا جو 21 طالبعلم بنتا ہے وہ کوٹا بھی بنگلہ دیش، افغانسان اور بھوٹان کے طلبہ کو مل جاتا ہے جن کا کوٹا بالترتیب دس چار چار فیصد ہے۔

قوائد کے تحت یونیورسٹی کے صدر اور ایگزیکٹو بورڈ کے سربراہ کو باری باری ہرملک میں تبدیل ہونا ہے مگر گزشتہ 10 سال سے بھارت کا قبضہ ہے۔

ڈھاکا میں 2004ء میں 13 ویں سارک کانفرنس کے دوران اس یونیورسٹی کی منظوری دی گئی تھی۔

قوائد کے تحت صدر، نائب صدر، رجسٹرار، ڈائریکٹر فنانس اور رجسٹرار ایک ملک کے نہیں ہوسکتے لیکن ساؤتھ ایشین یونیورسٹی میں یہ سارے عہدے بھارتیوں کے پاس ہیں۔

کراچی کی ایک مشہور یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس بھی امیدوار تھے انہیں انٹرویو کے لیے دو بار دہلی بلایا اور انٹرویو بھی اچھا اور طویل ہوا مگر انھیں پاکستانی ہونے کی وجہ سے بھرتی نہیں کیا۔

پاکستان ساؤتھ ایشیاء یونیورسٹی کو اب تک 8 لاکھ ڈالر دے چکا ہے اور51 لاکھ ڈالر فراہم کرنے ہیں جبکہ 2019ء میں صرف 6 پاکستانی طلبہ کو داخلہ ملا تھا۔ 

پاکستانی طلبہ کا کہنا تھا کہ اگر سارک یونیورسٹی کو سری لنکا یا مالدیپ نہ منتقل کیا گیا تو آئندہ چند برسوں میں ایک بھی پاکستانی طلبہ داخل نہیں ہوسکے گا۔ سری لنکا میں ہونے والی صحت کانفرنس میں سری لنکا نے میڈیکل یونیورسٹی کولمبو میں قائم کرنے کی تجویز دی تھی چنانچہ اس سارک یونیورسٹی کو سری لنکا منتقل کردیا جائے اور وہاں میڈیکل کا شعبہ قائم کردیا جائے تو بہتر ہوجائے گا کیوں کہ سری لنکا کے کوئی سیاسی عزائم نہیں۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں