جمعرات, 25 اپریل 2024


معروف گلوکاراحمد رشدی کی 32 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

ایمزٹی وی (کراچی) برصغیر کے معروف گلوکار احمد رشدی کو دنیا سے بچھڑے 32 برس بیت گئے 24 اپریل 1934 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والے احمد رشدی قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور یہی مستقل سکونت اختیار کی، انہیں بچپن سے ہی موسیقی سے لگاؤ تھا جسے دیکھتے ہوئے ان کے مرحوم والد کے ایک دوست نے انہیں موسیقی کی تعلیم دینے والے مقامی ادارے میں داخل کرایا جہاں اپنے وقت کے دور معروف موسیقار ایم اے رؤف اور اقبال قریشی موسیقی کی تعلیم دیا کرتے تھے اس کے علاوہ انہوں نے استاد نتھو خان سے کلاسیکی موسیقی سیکھی۔1951 میں انہوں نے بھارتی فلم عبرت سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اسی دوران ان کا خاندان کراچی آگیا اور ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے، احمد رشدی کو 1955 میں پاکستان کا قومی ترانہ پہلی مرتبہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہے ریڈیو میں بچوں کی دنیا کے نام سے نشر ہونے والے پروگرام میں ان کے گائے ہوئے گانے ’’بندر روڈ سے کیماڑی‘‘ نے پاکستان کی فلم انڈسٹری کے دروازے کھول دیئے۔ 1956 میں ریلیز ہونے والی فلم انوکھی میں گائے گئے گانے ’’میری لیلیٰ‘‘ نے انہیں مقبول ترین گلوکار بنادیا۔احمد رشدی نے پاکستان فلم انڈسٹری کے تمام ہیروز کے لئے گیت گائے لیکن وحید مراد پر ان کی آواز میں فلمائے گئے گیت کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی مقبول عام ہیں، جن میں ’’کوکو کورینا‘‘ اور ’’‘کچھ لوگ روٹھ کر بھی ‘‘ جیسے گیت شامل ہیں۔ انہوں نے 583 فلموں میں 5 ہزار سے زائد نغموں کو اپنی آواز میں ڈھالا، انہوں نے ناصرف اردو بلکہ انگریزی، پنجابی، بنگلا، سندھی اور گجراتی زبانوں میں بھی سیکڑوں نغمے گائے احمد رشدی کو برصغیر کا پہلا پاپ گلوکار ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے 1983 کو آج ہی کے روز احمد رشدی خالق حقیقی سے جاملے لیکن ان کی رسیلی آوازآج بھی کروڑوں مداحوں کے کانوں میں رس گھولتی ہے

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment