Print this page

ملکہ ترنم نور جہاں کی آج 93 ویں سالگرہ ہے

 
 
 
 
 
کراچی: آواز میں جاذبیت، کانوں میں رس گھول دینے والے نور جہاں کے مدھر سرلوگ آج تک نہ بھول سکے، ملکہ ترنم نورجہاں کی آج 93ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔
 
فن گائیکی کا سرمایہ، مدھر اورسریلی آواز کی مالک برصغیر کی معروف گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں، موسیقی کا ایک درخشاں عہد تھیں، اکیس ستمبرانیس سوچھبیس کوقصورمیں جو تارہ روشن ہوا وہ لوگوں کے دلوں میں گھر کرگیا۔
 
نور جہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا، اپنے فن اورمحبت کی بنا پر لوگوں نے انہيں ملکہ ترنم کا خطاب ديا، نورجہاں نے اپنے فنی کیرئر کا آغاز انیس سو پینتیس میں بطورچائلڈ اسٹارفلم پنڈ دی کڑیاں سے کیا جس کے بعد انمول گھڑی،ہیرسیال اور سسی پنو جیسی مشہور فلموں میں اداکاری کے جوہر آزمائے۔
 
سن 1941ءمیں موسیقار غلام حیدر نے انہیں اپنی فلم خزانچی میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا۔ 1941ءمیں ہی بمبئی میں بننے والی فلم خاندان ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سے ان کی محبت پروان چڑھی اور دونوں نے شادی کرلی۔
 
قیام پاکستان سے پہلے ان کی دیگر معروف فلموں میں،دوست، لال حویلی، بڑی ماں، نادان، نوکر، زینت، انمول گھڑی اور جگنو کے نام سرفہرست ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے فلم چن وے سے اپنے پاکستانی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کی ہدایات بھی انہی نے دی تھی۔ بطور اداکارہ ان کی دیگر فلموں میں گلنار، دوپٹہ، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب کے نام شامل ہیں۔
 
اس کے بعد انہوں نے اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کرکے خود کو گلوکاری تک محدود کرلیا۔ ایک ریکارڈ کے مطابق انہوں نے 995 فلموں کے لئے نغمات ریکارڈ کروائے جن میں آخری فلم گبھرو پنجاب دا تھی جو 2000ءمیں ریلیز ہوئی تھی۔
 
میڈم نے مجموعی طور پردس ہزار سے زیادہ غزلیں گائیں،میڈم نورجہاں الفاظ کی ادائیگی اور سر کے اتار چڑھاؤ میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں،یہی وجہ تھی کہ بھارت کی مشہور گلوکاروں نے بھی ان کے فن کو خوب سراہا، گلیمر کی دنیا سے لے کر جنگ کے محاذ تک ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنی آواز کے سحر سے سب کو اپنی آواز کے سحر میں جکڑے رکھا۔
 
لتا منگیشکر نے اپنے آڈیشن میں میڈم کا گایا ہوا گیت گایا، محمد رفیع صاحب کے ساتھ میڈم نور جہاں نے صرف ایک گیت گایا تھا۔لوگ آج بھی جب نور جہاں کے مدھر اور سریلے گیتوں کو سنتے ہیں تو مسحور ہو کر رہ جاتے ہیں۔
 
انہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران قومی نغمے بھی گائے جو ہماری قومی تاریخ کا اہم حصہ ہیں، حکومتِ پاکستان نے انکی خدمات کو سراہتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارگردگی اور نشان امتیاز سے نوازا۔
 
ملکہ ترنم نور جہاں 23دسمبر 2000ء کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئی تھیں، وہ کراچی کے ڈیفنس سوسائٹی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

پرنٹ یا ایمیل کریں