بدھ, 24 اپریل 2024


گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں کی آج19ویں برسی

کراچی: تمغہ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس کی حامل پاکستان کی معروف گلوکارہ ملکہ ترنم نور جہاں کی آج19ویں برسی منائی جارہی ہے۔ نور جہاں کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے- آپ21 ستمبر 1926 کوعظیم صوفی شاعر بلھے شاہ کی دھرتی قصور میں پیدا ہوئیں،ان کا اصل نام اللہ وسائی جبکہ نور جہاں ان کا فلمی نام تھاانہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم استاد بڑے غلام علی خاں صاحب سے حاصل کی۔
 
نور جہاں نے 9 سال کی عمرمیں گلوکاری کا آغاز کیا۔
قیام پاکستان سے قبل نور جہاں نے ممبئی میں کئی فلموں نادان، نوکر، لال حویلی، دل، ہمجولی اور جگنو وغیرہ میں کام کیا۔ قیام پاکستان کےبعدوہ لاہورمنتقل ہو گئیں جہاں پرانہوں نے اداکاری اورگلوکاری کا سلسلہ جاری رکھا۔بےبی نور جہاں نے  چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے بھی متعدد فلمیں کیں - ۱۹۳۹ میں فلم گل بکاولی  میں اداکاری اور گلوکاری  نے نورجہاں کو ایک اسٹار بنا دیا
 
موسیقار غلام حیدر نے1941میں انہیں اپنی فلم ’خزانچی‘ میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا اور اسی برس بمبئی میں بننے والی فلم ’خاندان‘ ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سےان کی شادی ہوگئی،جبکہ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے ہمراہ ممبئی سے کراچی منتقل ہوگئیں –
 
  جہاں 1951 میں انہوں نے فلم چن وے سے پاکستانی فلمی صنعت میں نئی جان ڈال دی۔ انہوں نے گلنار، پاٹے خان، انتظار، لخت جگر، کوئل، مرزا غالب اور ڈوپٹہ سمیت کئی فلموں میں ادا کاری اور گلوکاری کا جادو جگایا۔ 1957 میں نور جہاں کو فلم انتظار کے لیے صدارتی ایوارڈ دیا گیا-میڈم نور جہاں نےتقریباََ10 ہزار سے زائد غزلیں و گیت گائے جن میں سے بیشتر اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔
 
میڈم نور جہاں کی خوبصورت اور کانوں میں رس گھولنے والی آواز کی وجہ سے انہیں ملکہ ترنم کا خطاب ملا -ملکہ ترنم نور جہاں 23 دسمبر 2000 کو 74 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔اگرچے یوں لگتا ہے کہ وہ ہم میں نہیں لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی عوام میں بےپناہ مقبول ہیں۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment