ھفتہ, 20 اپریل 2024


پاکستان میں پولیوسے متاثرہ بچوں کی تعدادمیں خطرناک حد تک ا ضا فہ:

کراچی: ماہرین کے مطابق دنیا میں سب سے پہلی اینٹی بایوٹک 1928 میں ”الیگزینڈر فلیمنگ“ نامی شخص نے ایجاد کی جس کے بعد بیکٹیریا سے بچاو¿ کی ادویات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔بعد ازاں1960میں باقاعدہ طور پر دنیا میں میڈیکل ریولیوشن آیا اور اموات کی شرح میں خاصی کمی دیکھنے میں آئی۔اس کے بر عکس میڈیکل ریوولوشن سے قبل انسانی اموات کی شرح بہت زیادہ تھی۔وقت کے ساتھ ساتھ جہاں انسانی جان کی حفاظت کو نصب العین بنایا گیا وہیں صحت مند انہ زندگی گزارنے کے لئے بھی اقدامات تیز کئے گئے۔ مہلک بیماریوں سے بچاوکے لئے اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال نا گزیر ہوگیا۔ پیدائشی بچے سے لے کر 70برس کے بوڑھے کے لئے بھی ویکسینیشن بنائی جانے لگیں تا کہ انسانی زندگی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جا سکے اور اسے صحت مند زندگی مہیا کی جا سکے۔پولیو وائرس کے ذریعے پھیلنے والی ایسی بیماری ہے جو ایک شخص سے دوسرے شخص تک منتقل ہو سکتی ہے۔یہ مرض پیدائش سے لے کر پانچ برس کی عمرتک لاحق ہو سکتا ہے جو پوری زندگی انسان کو معذور یا شدید حالت میں انسان کی موت کی وجہ بھی بن سکتا ہے لیکن اس کا علاج پیدائش سے لے کر پانچ برس کی عمرتک مسلسل ویکسینیشن سے ممکن ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق پولیو کے90 فیصد کیسز دنیا کے صرف تین ممالکافغانستان‘نائجیریااور پاکستان میں رپورٹ ہوئے ہیں۔پاکستان اور افغانستان مسلم ممالک ہیں جب کہ نائجیریا کی آدھی آبادی مسلمان ہے۔کئی برس سے پولیو ویکسین کے حوالے سے پاکستان بھر میں ایک بہت بڑی بحث جاری ہے، کوئی اس ویکسین کے حق میں بات کرتا ہے تو کوئی اسے سازش قرار دے کر اس کے خلاف ٹھوس دلائل پیش کرتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق دس سال پہلے یہ شرح سالانہ199 افراد تھی اور آج بھی اس کی شرح تقریباً 199 سے 200 افراد سالانہ ہے جبکہ نائجیریا میں صورتحال اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔شروع میں جب پولیو ویکسینیشن کو متعارف کروایا گیا تو عوام اور علمائاکرام نے اس کی شدید مخالفت کی اس کے بعد علمائکرام کو حکومت نے پولیو ویکسینیشن کے لئے قائل کیا جنہوں نے بعد میں فتوی کے ذریعے اسے جائز قرار دے دیا۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment