Print this page

وہ عورت جس نے آئن اسٹائن کوعظیم سائنسداں بنایا

 
وہ عورت جس نے آئن اسٹائن کوعظیم سائنسداں بنایا
 
 
 
 
آج سائنس کے سب سے بڑے نام البرٹ آئن اسٹائن کی سالگرہ ہے، آئن اسٹائن کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا طبیعات داں تسلیم کیا جاچکا ہےجس کے نظریات پر آج بھی ریسرچ ہورہی ہے۔
 
دنیا کا یہ سب سے عظیم سائنسداں 14 مارچ1879 کو جرمنی میں پیدا ہوا تھا۔ پیدائشی طور پر وہ ایک یہودی تھے ، جن کے والد ہرمین آئن سٹائن ایک درمیانے درجے کے کاروباری تھے جبکہ والدہ پالین کوش ایک گھریلو خاتون تھیں۔
 
جب آئنسٹائن چھ برس کا تھے، تب ان کا خاندان میونخ آ گیا۔ جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم ایک کیتھولک اسکول میں پائی۔ جس کا سخت ماحول اس بچے کو ناگوار گزرتا تھا۔ 1894ء میں البرٹ آئن سٹائن کو بورڈنگ مدرسہ میں پیچھے چھوڑ کر، اس کا باپ کاروباری وجوہات کی بنا پر خاندان سمیت اٹلی منتقل ہو گیا۔ دسمبر 1894ء میں سولہ سال کی عمر میں تعلیم ادھوری چھوڑ کر آئن سٹائن (غالباً جرمن کی لازمی فوجی سروس کے خوف سے ) خود بھی اٹلی پہنچ گیا۔
 
ملیوا میرک سربیا کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اسے بچپن سے ہی طبیعات اور ریاضی پڑھنے کا شوق تھا۔ ابتدائی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اس کے والد نے اسے سوئٹزر لینڈ کی زیورخ یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے بھیجا اور یہیں اس کی ملاقات آئن اسٹائن سے ہوئی۔
 
دوران تعلیم ملیوا اور آئن اسٹائن میں محبت کا تعلق قائم ہوچکا تھا اور وہ دونوں شادی کرنا چاہتے تھے تاہم آئن اسٹائن کے والدین اس رشتے کے مخالف تھے۔
 
 
کچھ عرصے بعد ان دونوں نے مل کر اپنا پہلا تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ جب اس کی اشاعت کا وقت آیا تو ملیوا نے اپنا نام چھپوانے سے انکار کردیا۔ اس کی ایک وجہ اس وقت کی معاشرتی تنگ نظری تھی۔
 
فکرِ معاش کے سبب آئن اسٹائن اور ملیوا شادی نہیں کر پا رہے تھے ، اسی د وران ملیوا حاملہ ہو گئی۔ 1902ء میں انہوں ایک لڑکی کو جنم دیا۔ جنوری 1903ء میں ملیوا سے شادی ہو گئی۔ پیٹنٹ دفتر میں کام کے دوران میں آئنسٹائن فزکس کے مسائل پر بھی تحقیق کرتا رہا اور اسی دوران میں اس نے اپنی زندگی کے عظیم تریں مقالات شائع کیے۔ کچھ محققین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ آئن اسٹائن کی تحقیق میں ملیوا مارِک بھی شریک تھی۔
 
بعد ازاں ملیوا سے اس کے تعلقات خراب ہوگئے اور وہ اپنے بچوں کو لے کر علیحدہ ہوگئی ۔ اس زمانے میں بازگشت تھی کہ آئن اسٹائن کو نوبیل انعام دیا جائے گا۔ دونوں کے درمیانب معاہدہ ہوا کہ اگر نوبیل ملتا ہے تو اس کی آدھی رقم ملیوا کے حصے میں آئے گی تاہم بعد میں آئن اسٹائن اپنے اس وعدے سے مکرگئے۔ اور ملیوا نے اپنے آخری ایام انتہائی غربت اور کسمپرسی کے عالم میں گزارے۔
 
 
 
نظریۂ عمومی اضافیت سائنسی میدان میں آئن سٹائن کی سب سے بڑی کامیابی تھا۔ اس نظریہ پر کام 1915ء میں مکمل کیا۔ اس میں یہ بتایا گیا کہ اسراع کے دوران مشاہد جو طاقت محسوس کرتا ہے وہ بعینہ کشش ثقل کی طرح ہے۔
 
آئن اسٹائن جرمنی کا شدید ترین مخالف تھااور یہودی ریاست کے قیام کا بہت بڑا حامی ، امریکی فوج میں اس کی شہرت بم بنانے والے شخص کی تھی ، ہیرو شیمااور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم بھی اسی کی تحقیق پر ہونے والے کام کے نتیجے میں وجود میں آیا ۔ تاہم ان بموں کے استعمال کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ یہ ایجادکس قدر دہشت انگیز ہے۔
 
آئنسٹائن عمومی اضافیت کے نظریہ سے مشہوری پانے کے بعد دنیا بھر کے دورے کیے جس میں جاپان، جنوبی امریکا، امریکا اور فلسطین شامل تھے۔ امریکا کئی دفعہ گیا۔ ان دوروں میں سائنسی لیکچر کے علاوہ آئن اسٹائن صیہونیت کا بھی پرچار کرتا۔
 
انتہائی منفرد اور عظیم ذہن کا مالک یہ سائنسداں 18 اپریل 1955 جو اس دنیا سے رخصت ہوا، پوسٹ مارٹم میں موت کا سبب دماغ کی شریان کا پھٹنا بتایا گیا۔ آئن اسٹائن نے وصیت کی تھی کہ اس ے دفن کرنے کے بجائے جلایا جائے، اس موقع پر ایک ڈاکٹر نے آئن اسٹائن کا دماغ اس کی میت سے نکال کر چھپالیا اور پھر ایک طویل عرصے بعد اسے تحقیق کے لیے سائنسدانوں کے حوالے کیا۔

پرنٹ یا ایمیل کریں