منگل, 16 اپریل 2024


افغانستان میں خواتین کی تعلیم سےمتعلق نئی تعلیمی پالیسی کااعلان

 کابل: افغانستان میں قائم ہونے والی طالبان کی نئی حکومت نے خواتین کی تعلیم سے متعلق نئی تعلیمی پالیسی کااعلان کردیا ۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ روز کابل میں طالبان کی عبوری حکومت کے ہائیر ایجوکیشن کے وزیر عبدالباقی حقانی کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس کے دوران افغانستان میں طالبات کے لیے نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا ۔

پریس کانفرنس کے دوران ہائیر ایجوکیشن کے وزیر عبدالباقی حقانی کا کہناتھا کہ افغانستان میں یونیورسٹیزکو صنف کے لحاظ سے تقسیم کیا جائے گا ، ساتھ ہی طالبات کے لیے نیا ڈریس کوڈ بھی متعارف کروایا جائے گا۔

وزیر عبدالباقی حقانی کے مطابق، ان کی حکومت میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہوگی لیکن خواتین مردوں کے ساتھ تعلیم حاصل نہیں کرپائیں گی۔ ساتھ ہی تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل طالبان کی سابقہ حکومت میں خواتین کے لیے خاصے سخت قوانین نافذ کیے گئے تھے جن کے تحت 1996 سے 2001 کےدوران خواتین کو اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کی اجازت نہیں تھی۔

تاہم اب طالبان کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کو تعلیم یا ملازمت کرنے سے نہیں روکیں گے۔

خیال رہے کہ طالبان کے کنٹرول سنبھالنے سے قبل افغانستان میں طالبات کو ڈریس کوڈ کی پابندی نہیں کرنا پڑتی تھی جبکہ یونیورسٹیوں میں بھی مخلوط تعلیمی نظام کا سلسلہ جاری تھا جس کے تحت لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کیا کرتے تھے ۔

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالباقی حقانی نے کہا کہ ہمیں مخلوط نظام تعلیم ختم کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہے، لوگ مسلمان ہیں وہ اس تبدیلی کو قبول کریں گے۔

عبدالباقی کے مطابق، افغانستان میں اب بھی پہلے کی طرح لڑکے لڑکیوں کو پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں بھی علیحدہ علیحدہ پڑھایا جائے گا۔

وزیر ہائیر ایجوکیشن کا مزید کہنا تھا کہ درس گاہوں میں خواتین کو حجاب پہننے کی ضرورت ہوگی تاہم وزیر تعلیم کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں خواتین کو چہرے ڈھانپنا لازمی ہوگا یا نہیں۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment