Print this page

اے پی سی کانفرنس

 ایمز ٹی وی (اسلام آباد) وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کی اندرونی کہانی منظر عام پر آ گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق اجلاس کی ابتداءمیں کئی سیاسی قائدین کی طرف سے مجوزہ فوجی عدالتوں کے قیام پر تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا گیا مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا بات بنتی گئی۔ اجلاس شروع ہوا تو قانونی اور آئینی ماہرین کے درمیان ایک گھنٹے تک دلائل کا تبادلہ ہوتا رہا، اس دوران فاروق ایچ نائیک اور اعتزاز احسن نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے صرف آر می ایکٹ میں محدود ترمیم کی بات کی تو اٹارنی جنرل آف پاکستان سلمان بٹ کی طرف سے انہیں مطمئن کیا گیا۔

پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے وزیراعظم کو مخاطب کر کے کہا کہ میاں صاحب وقت آ گیا ہے کہ آ پ غیر مقبول فیصلے کریں، چاہے آ پ کی حکومت ہی کیوں نہ چلی جائے، اگر ہم میں سے کسی کا بچہ پشاور سانحے میں مارا گیا ہوتا میں دیکھتا کہ کون آئینی ترمیم سے انکار کرتا ہے۔ اس پر نوازشریف نے انہیں جواب دیا کہ میں صرف عدلیہ سے ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ اس ترمیم سے غلط تاثر نہ لے لیں۔ 

جہاں ایک طرف پیپلز پارٹی کے وکلاءآئینی ترمیم کی مخالفت کر رہے تھے وہیں پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف زرداری نے کہا کہ ہم سب سے ساتھ ہیں، جو فیصلہ سب کریں گے ہم اس کا ساتھ دیں گے۔ انہوں نے بآواز بلند کہا کہ میں ساتھ ہوں آرمی ایکٹ میں ترمیم کریںیا آئین میںترمیم کر دیں۔

پاکستان تھریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی اجلاس کے شروع ہوتے ہی فوجی عدالتوں کے قیام پر تحفظات کو اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالتیں اور وکلاءبارز اس کے خلاف میدان میں آ جائیں گی۔ انہوں نے تجویز دی کہ پہلے مرحلے میں خصوصی عدالتوں کے قیام کیلئے آرمی ایکٹ میں ترمیم کر لی جائے اور بعد میں باقاعدہ آئینی ترمیم کر لی جائے۔ اس پر مسلم لیگ ق کے سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کا دیا گیا فارمولا اس ملک میں بہت بار آز مایا جا چکا ہے مگر کچھ نہیں بدل سکا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب سے سب ڈرے ہوئے ہیں، کسی کو عدالتوں کا ڈر ہے تو کسی کو وکلاءکا، مجھے لگتا ہے کہ ہم آل پارٹیز کانفرنس میں نہیں بلکہ کسی کورٹ روم میں بیٹھے ہیں۔

آل پارٹیز کانفرنس ختم، فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے آئینی ترمیم پر اتفاق ہو گیا

اجلاس کے دوران جب دوسرے قائدین قدرے مطمئن ہوئے تو جمیعت علماءاسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ دہشتگردوں میں مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں ہونی چاہیے اور مدرسوں کی خلاف کاروائی نہیں کرنی چاہئے ۔ اس پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ان کو مطمئن کیا۔ اور پھر اجلاس کے اختتام میں مولونا فضل الرحمن نے ہی کئے گئے فیصلوں پر مکمل عمل درآمد کی دعا بھی کروائی۔

پرنٹ یا ایمیل کریں