Print this page

مذاکرات ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی جانب رواں دواں

 


ایمزٹی وی(اسلام آباد) بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے کہا ہے کہ بھارت سے مذاکرات کی بھیک نہیں مانگ رہے ۔صبر سے انتظار کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں اور مذاکرات کے لیے بھارتی حکومت کے جواب کا انتظار کر سکتے ہیں ۔

بھارتی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ بھارت ایل او سی پر فائرنگ بند کرے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت جامع مذاکرات کیلئے تیار نہیں تاہم پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا
انہوں نے کہا کہ بھارت سے جامع مذاکرات ک سلسلے میں بہت اقدامات اٹھائے تاہم معاملات جوں کے توں ہی رہے اور دونوں ممالک کو مذاکرات کا از سر نو آغاز کرنا پڑتا ہے۔’’ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس میں سرتاج شرکت کریں گے تاہم ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں دونوں ممالک کے درمیان پیش رفت ہونا ناممکن ہے‘‘ ۔ دونوں ممالک مذاکرات کی راہ میں ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی جانب چل رہے ہیں ۔ اسلام آباد چاہتا ہے کہ معاملات آگے کی جانب بڑھیں تاہم ہم صبر سے انتظار کی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہیں ۔ اگر ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں برف نہیں پگھلتی تو پھر کسی اور موقع کا انتظار کرنا ہوگا ۔

انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف بہت اقدامات کیے ہیں اور اگر بھارت کے پاس کوئی ثبوت ہے تو الزامات عائد کرنے کے بجائے انہیں پاکستان کے ساتھ شیئر کرنا چاہئے تاہم پاکستان بھی چاہتا ہے کہ جو کچھ بلوچستان فاٹا اور کراچی میں ہورہا ہے ۔ ان معاملات کو بھارت کے ساتھ اٹھائے ۔ ہم ایک معقول انداز میں بات کرنا چاہتے ہیں
کشمیر کے حوالے سے پاکستانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد جاری رکھے گا ۔ اس حوالے سے یہ توقع رکھنا کہ پاکستان کشمیر کی صورت حال سے منہ موڑ لے گا۔ یہ ممکن نہیں ہے ۔ پاکستان اس حوالے سے بالکل بھی فکرمند نہیں ہے کہ کانفرنس کے اختتام پر دہشت گردی کے حوالے سے کوئی سخت موقف اپنایا جائے گا کیونکہ پاکستان خود دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہے۔

پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال نے معاملات کو مشکل بنادیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہے ۔ لائن آف کنٹرول کا معاملہ ایسا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزام عائد کرتے ہیں ۔’’پہلی بات تو ہونی چاہئے کہ ایل او سی پر فائرنگ فوری طور پر بند ہونی چاہئے‘‘ ۔ اس کے بعد دو طرفہ مٰذاکرات کا آغاز ہو کیونکہ اس کے بارے میں کسی سمجھوتے پر نہیں پہنچا جاسکتا ۔

ایک سوال پر انکا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستانی پالیسی عدم برداشت کی ہے اور پاکستان نے ماضی میں کالعدم تنظیموں کے خلاف مختلف امریکی پالیسی کے بارے میں عبدالباسط نے کہا کہ امریکا پاکستان کا سب سے بڑا کاروباری اتحادی ہے ۔ جس کا افغانستان میں ایک اہم کردار بھی ہے۔ تاہم پاکستان اور بھارت کو اپنے مسائل خود بات چیت سے حل کرنا ہوں گے۔ امریکا دونوں ممالک کی حوصلہ افزائی تو کرسکتا ہے ۔ تاہم فیصلہ سازی کی ذمہ داری نئی دلی اور اسلام آباد پر عائد ہوتی ہے۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں