جمعرات, 18 اپریل 2024


طیارے کو تباہی سے بچایا جا سکتا تھا

 


ایمزٹی وی(اسلام آباد) ایوی ایشن ماہرین نے پی آئی اے کی پرواز پی کے 661 کے تباہ ہونے میں انسانی غلطی کے امکان کو مسترد نہیں کیا اور ان کا ماننا ہے کہ ”انجن کی خرابی کے باعث طیارہ تباہ نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ یہ اس کے بعد بھی آپریٹو انجن کے ذریعے اڑنے کے قابل تھا۔“
ائیرمارشل (ریٹائرڈ) شاہد لطیف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ طیارے کو تباہی سے بچایا جا سکتا تھا۔

ان کے مطابق اگر طیارے کا ایک انجن خراب ہو گیا تھا تو یہ اس کے باوجود اڑ سکتا تھا اور اسے ایمرجنسی لینڈنگ کیلئے قریبی ہوائی اڈے کی جانب موڑا جا سکتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ”جیسا کہ ہم جانتے ہیں طیارے کا ایک انجن خراب ہوا تھا۔ طیارے کے پائلٹ کو اسے بحفاظت اتار لینا چاہئے تھا۔ طیارے کو ایمرجنسی لینڈنگ کے لئے مناسب رن وے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ طیارے کے پائلٹ کو ہنگامی حالات کو مناسب طریقے سے سنبھالنا چاہئے تھا۔“

انہوں نے کہا کہ یہ حادثہ پائلٹ کی غلطی کے باعث پیش آیا کیونکہ وہ ہنگامی حالات کا مناسب طریقے سے سامنا نہیں کر سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پائلٹ اور کو پائلٹ کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونا بھی حادثے کی ایک وجہ ہے۔ ناگزیر حالات میں طیارے کی تباہی پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ”اگر کوئی طیارہ ہوا میں آگ پکڑ لے اور جل جائے تو اسے ناگزیر حالات کہا جائے گا۔“
پاکستانی نژاد برطانوی ایوی ایشن ماہر ملک ریاض اعوان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ پاکستان میں ائیرکریش کا پہلا واقعہ ہے تاہم کسی بھی دعوے سے قبل بہت سی چیزوں کو مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”کسی طوفان یا آسمانی بجلی کے طیارے سے ٹکرانے کے امکان کو یکسر مسترد کرنا ہو گا۔ طیارے کے پائلٹ کی جانب سے بھیجا جانے والے آخری پیغام بھی بہت اہم ہے۔“

دو انجن والے طیارے کا ایک انجن کے ساتھ پرواز کرنے کے دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”پائلٹ کو صرف تھروٹل اور ایندھن کی فراہمی کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔“ ان کا کہنا تھا کہ طیارے حادثے کی تحقیقات مہینوں پر محیط ہوتی ہے اور اس میں لوڈنگ کے معاملے کو بھی چیک کرنا چاہئے کیونکہ نامناسب لوڈنگ کشش ثقل پر اثرانداز ہوتی ہے اور حادثے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر طیارے کا ایندھن ختم بھی ہو جائے تو یہ اس کے بعد 20 منٹ تک پرواز کر سکتا ہے۔

ائیربلیو طیارہ حادثہ متاثرین کی تنظیم (اے سی اے اے) اور بھوجا ائیر کریش فیملیز ایسوسی ایشن نے حادثے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تحقیقات سول ایوی ایشن اتھارٹی کے زیر اثر نہیں ہونی چاہئیں۔

حادثے کی جلد از جلد رپورٹ کی تیاری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ سول ایوی ایشن کے معاملے میں کیرئیرز اور ریگولیٹرز کے روئیے سے بہت مایوس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 6 سال کے دوران ملک بھر میں کئی حادثات ہوئے جن کے نتیجے میں 350 انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ ”حالیہ حادثے نے سول ایوی ایشن کے ملکی سیکٹر میں لاگو معیاری آپریٹنگ کے طریقہ کار کے نظام میں خامیوں کو ایک بار پھر عیاں کر دیا ہے۔“

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment