Print this page

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری فوجی عدالتوں کی حمایت پر پارٹی سے ناراض

ایمز ٹی وی (اسلام آباد) پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین کا یہ ٹوئٹر پیغام، ان کی پارٹی قیادت اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے آئین میں 21 ویں ترمیم کی حمایت کے فیصلے سے بالکل متصادم ہے۔اس پیغام نے بلاول کے اپنے والد آصف علی زرداری سے اختلافات کی میڈیا رپورٹس کو بھی مزید ہوا دی ہے۔واضح رہے کہ چند میڈیا رپورٹس کے مطابق بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری کے درمیان گزشتہ دنوں کچھ اختلافات نے جنم لیا اور اسی وجہ سے بلاول 27 دسمبر کو اپنی والدہ بینظیر بھٹو کی برسی میں شرکت کے لیے لاڑکانہ نہیں آئے ، جب کہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔جبکہ پیپلز پارٹی کے یوتھ ونگ کی موجودگی میں ' ٹیم بلاول' نامی ویب سائٹ کا اجراء بھی بلاول بھٹو زرداری کے لیے اپنا حمایتی گروپ بنانے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔پیپلز پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ '21 ویں ترمیم کے خلاف بلاول کے اس مضبوط ٹوئٹر پیغام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس انتہائی اہم معاملے پر ان سے مشاورت نہیں کی گئی ، یہی وجہ کہ انھوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا ہے'۔ان کا کہنا تھا کہ ڈکٹیر شپ کے خلاف پیپلز پارٹی کی جدوجہد کو مد نظر رکھتے ہوئے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی مایوسی اور غصہ بجا اور قابل فہم ہے۔'بلاول چاہتے تھے کہ ان کے والد اور پارٹی اس ترمیم کی مخالفت کریں جو آئین کو فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت دیتی ہے، تاہم لگتا ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد پیپلز پارٹی کے پاس فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں بچا تھا'۔پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل لطیف کھوسہ نے ڈان کوبتایا کہ پارٹی میں ہر کوئی 21 ویں ترمیم کے حوالے سے ایک نکتے پر متفق تھا۔ 'ہم نے یہ کڑوی گولی قومی مفاد کے لیے نگلی ہے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ وزیراعظم یا دیگر سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری فوجی عدالتوں کے قیام میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام دیں'۔لطیف کھوسہ کے مطابق انھوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے اراکین اسمبلی سے بھی بات کی، جو فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں ووٹ دینے پر خوش نہیں تھے۔' لیکن پشاورمیں طالبان دہشت گردوں کے حملے میں معصوم بچوں کی ہلاکت کے بعد ہم نے ملک میں امن کے قیام کے لیے دل پر پتھر رکھ کر یہ فیصلہ کیا'۔ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو چاہتے تھے کہ جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے سیاسی طاقتیں اکٹھی ہوجائیں۔دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرادری کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ وہ بلاول بھٹو کے اس ٹوئٹر پیغام کے حوالے سے سرعام کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔

پرنٹ یا ایمیل کریں