Print this page

پاکستان کی شہریت بیچنے والے جرائم پیشہ افراد کی کوئی گنجائش نہیں

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے شناختی کارڈ کی تصدیق، منسوخ و بحالی کے عمل سے متعلق سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل 18 رکنی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ نادرا میں ملک کو بیچنے والے افراد کی کوئی گنجائش نہیں۔ جن لوگوں کے شناختی کارڈز غیر ضروری طور پر بلاک ہوئے ان کی بحالی کا طریقہ کار بھی وضع کر دیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ گزشتہ حکومتوں نے دیدہ دلیری سے شناختی کارڈ، پاسپورٹ غیر ملکیوں کو دئیے جو انسانی سمگلنگ کیلئے استعمال ہوئے۔ بیرون ملک دہشت گردی کے الزام میں پکڑے گئے افراد بھی پاکستانی نہیں تھے لیکن ان سے پاکستانی پاسپورٹ برآمد ہونے سے بدنامی ہوئی۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے دور حکومت میں جعلی شناختی کارڈز کا کاروبار خوب چلا اور تمام شناختی کارڈز اور پاسپورٹس کسی کی ملی بھگت سے ہی بنے ہوں گے اور دہشت گردوں کے ہاتھوں میں جاتے رہے۔


انہوں نے کہا کہ حکومت نے جعلی شناختی کارڈز کے معاملے پر بہت توجہ دی اور شناختی کارڈ کی تصدیق کے عمل کیلئے 6 ماہ کا وقت دیا گیا لیکن اسے ناممکن قرار دیا گیا کیونکہ پاکستان میں ٹھیک کام کرنا مشکل اور غلط کام کرنا آسان ترین ہے ۔ تاہم حکومت نے نادرا میں موجود اچھے لوگوں کی مدد سے 6 ماہ کی کوشش کے بعد شناختی کارڈ کی تصدیق کا عمل مکمل کیا اور ساڑھے تین سال میں ساڑھے چار لاکھ شناختی کارڈز منسوخ کئے اور صرف رواں سال 2 لاکھ 23 ہزار 512 شناختی کارڈز بلاک کئے گئے جبکہ 10 کروڑ 10 لاکھ افراد کی تصدیق کیلئے ہم نے ایس ایم ایس بھیجے۔
اسی طرح پاسپورٹس کی تصدیق کے عمل کے دوران ساڑھے تین سالوں میں 32 ہزار 400 سے زائد پاسپورٹس بلاک کئے گئے اور اور غیر قانونی سموں کی تصدیق کے عمل کے دوران ساڑھے تین مہینوں میں 9 کروڑ غیر قانونی سمز بلاک کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے صرف 519 شناختی کارڈز اور چند پاسپورٹ منسوخ کئے جبکہ 2011ءمیں صرف 26 پاسپورٹس منسوخ ہوئے ۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کینسر کا جب علاج ہوتا ہے تو اس میں بھی تکلیف ہوتی ہے، یہ جعلی کارڈز اور پاسپورٹس میرے دورمیں نہیں بنائے گئے بلکہ میں تو ان کا علاج کر رہا ہوں۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ اس تمام عمل کے دوران جو شناختی کارڈ غیر ضروری طور پر بلاک ہوئے وہ بحال ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وعدے کے مطابق اس معاملے پر قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پرمشتمل 18 رکنی کمیٹی بھی بنا رہا ہوں جس سے نادرا اب تک تصدیق ہونے والے اور آئندہ تصدیق کے عمل سے گزرنے والے تمام شناختی اکرڈز کا ریکارڈ ہر مہینے شیئر کرے گا۔ اس کے علاوہ کچھ ایس او پیز طے کئے ہیں تاکہ جن لوگوں کا کارڈ ناجائز طور پر بلاک ہوا ہے انہیں ہنگامی طور پر بحال کیا جا سکے۔ یہ افراد ذیل میں بتائی گئی کوئی بھی چیز پیش کر دیں گے تو فوراً کا شناختی کارڈ بحال کر دیا جائے گا۔

1:۔ کسی شخص کے پاس ریونیو ڈیپارٹمنٹ سے تصدیق شدہ 1973ءسے پہلے کا اراضی کی ملکیت کا ریکارڈ
2:۔ تصدیق شدہ ڈومیسائل یا لوکل گورنمنٹ کا تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ
3:۔ لوکل انتظامیہ سے ریونیو ڈیپارٹمنٹ کا جاری تصدیق شدہ شجرہ نصب
4:۔ سرکاری ملازمت کا سرٹیفکیٹ، جس شناختی کا شناختی کارڈ بلاک ہوا ہے، اگر اس کا بھائی اور خونی رشتہ دار بھی سرکاری ملازم ہے تو اس کا ریکارڈ پیش کرنے پر بھی کارڈ بحال ہو جائے گا۔
5:۔ شناختی کارڈ بلاک ہونے والے شخص کا خونی رشتہ دار بھی اگر سرکاری ملازم ہے تو 1973ءسے قبل کی باقاعدہ تصدیق شدہ تعلیمی اسناد پیش کرنے پر بھی
شناختی کارڈ بحال کر دیا جائے گا، یہ دستاویزات والد یا داد کی بھی ہو سکتی ہیں۔
6:۔ حکومت پاکستان سے 1973ءسے قبل جاری کردہ کوئی بھی متعلقہ دستاویزات جس کی باقاعدہ تصدیق ہوئی ہو
وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان نیشنل ڈیٹا بیس اتھارٹی میں پاکستان کی شہریت بیچنے والے جرائم پیشہ افراد کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور جتنے کارڈ منسوخ ہوئے اتنے اہلکاروں کے خلاف کارروائیاں بھی نہیں کی گئیں جبکہ جعلی شناختی کارڈ بنوانے والوں کی پکڑ دھکڑ کسی اور مرحلے میں ہو گی۔
وزیر داخلہ نے ایک سوال کے جواب پر کہا کہ سیاست کے نام پر عجیب سی کھچڑی پکائی جا رہی ہے اور پاکستان کے آئینی اداروں کو سیاست کی بھینٹ چڑھانا اور انہیں متنازع بنانے کی کوشش کرنا پاکستان کے آئین کیساتھ مذاق ہے۔ ایسے لوگوں کی خواہش ہے کہ ان اداروں کے سربراہ ان کی کرپشن اور دھرنوں کا ساتھ دینے والے ہیں۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں