Print this page

پاناما کیس لندن فلیٹس تک محدود

ایمزٹی وی(اسلام آباد)پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیق تو بہت ہوئی لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ پاناما لیکس کیس کی سماعت کررہا ہے۔ سماعت کے آغاز پر جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیئے کہ انہیں گزشتہ روز آرٹیکل باسٹھ ،تریسٹھ سے متعلق آبزرویشن نہیں دینا چاہئے تھی، انہیں اپنے الفاظ پر ندامت ہے اور وہ ان الفاظ کو واپس لیتے ہیں
۔
عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسحاق ڈار کی منی لانڈرنگ کے بارے میں رپورٹ تیار ہوئی تھی، جسے ستمبر 1998 میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ، چیف جسٹس آف پاکستان اور نیب کو بھیجا گیا تھا ، اس رپورٹ کو ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر رحمان ملک نے تحریر کیا تھا۔ اس دوران جسٹس گلزار نے نعیم بخاری کو تنبیہہ کی کہ عدالت جب کوئی سوال پوچھے تو اس کا جواب دیا جائے۔

جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ پاناما کیس لندن فلیٹس تک محدود ہے، اسحاق ڈار کے بیان کی کیا اہمیت ہے کیا وہ شریک ملزم ہے؟، ہمیں مطمئن کریں کہ نیب کو حدیبیہ کیس میں اپیل کرنا چاہیے تھی، اگر آپ دوسری جانب دلائل دیں گے تو معاملہ کہیں اور نکل جائے گا، سپریم کورٹ کا تقدس ہر حال میں برقرار رکھنا ہوگا، ہمیں اپنے دائرہ کار سے باہر نہ نکالیں، ہائی کورٹ مقدمہ ختم کر دے تو اس کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے۔ محض پولیس ڈائری کی بنیاد پر حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، تفتیشی ادارے جو اقدامات کریں انہیں قانونی طور پر پرکھنا ہوتا ہے، نیب کو تحقیقات کا کہہ سکتے ہیں لیکن ریفرنس دائر کرنے کا نہیں کہیں گے، سپریم کورٹ نیب اور ٹرائل کورٹ کا کام نہیں کر سکتی، آپ نیب کے پاس جائیں اور درخواست دیں، ہم ٹرائل کورٹ نہیں۔

نعیم بخاری نے کہا کہ اسحاق ڈار نے بیان میں منی لانڈرنگ میں کردار کا اعتراف کیا، ماضی میں تو عدالت عظمی اخباری تراشوں پر بھی فیصلے کرتی رہی۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ بخاری صاحب عدالت کو مطمئن کریں قوم سے خطاب نہ کریں، آپ کہتے ہیں کہ رائے کی بنیاد پر بغیر ثبوت فیصلہ کریں، یہ رپورٹ ایف آئی اے خود مسترد کر چکی ہے اس پر فیصلہ کیسے دیں، رحمان ملک کا نام شاید پاناما لیکس میں ہے۔ کیا عدالت فیصلہ کرنے کا اختیار رحمان ملک کو دے دے۔ اپنے دوست رحمان ملک کو جرح کے لئے کب لا رہے ہیں۔ نعیم بخاری نے کہا کہ ایف آئی اے کا مقدمہ اپنی طبعی موت مر گیا، وہ اپنے جواب الجواب میں رحمان ملک کو جرح کے لئے بلائیں گے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کریمنل کورٹ نہیں ہے، پولیس افسر کی رائے کی بغیر ثبوت کوئی قانونی اہمیت نہیں، راستہ صرف یہی ہے کہ چیئرمین نیب فیصلہ کے خلاف اپیل کریں، اپیل جانچنے کے بعد فیصلہ کریں گے دوبارہ تفتیش کا حکم دے سکتے ہیں یا نہیں۔ آپ کی تحقیق بہت اچھی ہے لیکن اس کا کیا فائدہ۔ آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ پہلے تفتیش اور پھر ٹرائل کورٹ بن کر فیصلہ دے حالانکہ عدالت کے سامنے معاملہ آئینی طور پر نااہل قرار دینے کا ہے۔

فاضل ججز کے ریمارکس پر نعیم بخاری نے کہا کہ میں تو اسٹپنی وکیل ہوں اصل وکیل تو حامد خان تھے، حامد خان کے کیس سے الگ ہونے پر بوجھ میرے کندھوں پر آگیا۔ وہ عدالت سے اہلیت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی استدعا کرتے ہیں، جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ آپ اب وکٹ پر آئے ہیں، آپ پچ سے باہر نکل کر نہ کھیلا کریں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ آپ چاہتے ہیں ہم قانون سے بالاتر ہوکر تحقیقات کریں، کیا رحمان ملک نے بطور وزیر یہ معاملہ اٹھایا، کیا منی لانڈرنگ پر ہونے والی تحقیقات انجام کو پہنچیں۔ جس پر نعیم بخاری نے جواب دیا کہ وزیر داخلہ بننے کے بعد رحمان ملک کو یہ معاملہ اٹھانا چاہیے تھا، مخلوط حکومت بنی تو (ن) لیگ حکومت کا حصہ تھی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم سیاسی معاملات میں نہیں جانا چاہیے۔ منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیق تو بہت ہوئی لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلا، ہمارا کام کرپشن ثابت کرنا نہیں ہے۔

پرنٹ یا ایمیل کریں