Print this page

اسحاق ڈار کو معافی نامہ کیسے دیا گیا؟

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)پاناما کیس میں وزیر اعظم کے وکیل نے میاں شریف کی جائیداد کی تقسیم اور تحائف کی تفصیلات پیش کرنے کیلئے سپریم کورٹ سے پیر تک مہلت طلب کر لی جبکہ عدالت نے نیب سے نوازشریف اور اسحاق ڈار کیخلاف منی لانڈرنگ ریفرنس کی تفصیلات طلب کر تے ہوئے ریمارکس دیے کہ نیب بتائے کہ اسحاق ڈار کو مشروط یا غیر مشروط معافی نامہ دیا گیا ؟ نیب ریکارڈ اور دساویزات پیر تک عدالت میں جمع کرادے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ اسحاق ڈار کو معافی نامہ کیسے دیا گیا ۔دیکھنا چاہتے ہیں کہ اسحاق ڈار نے معافی نامے سے پہلے اعترافی بیان ریکارڈ کرا یا یا بعد میں ؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پاناما کیس کی سماعت جاری ہوئی ۔ اس دوران عدالت نے گزشتہ روز کے احکامات کے حوالے سے وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان سے میاں شریف کی جائیداد کی تقسیم اور وزیر اعظم نواز شریف اور بچوں کے درمیان تحائف کے تبادلے کے حوالے سے دستاویزات پیش کر نے کا کہا توانہوں نے عدالت سے پیر تک مہلت طلب کر لی ۔بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ پہلے کہا گیا کہ تمام دستاویزات موجود ہیں اور پیش کر دی جائیں گی اور اب پیر تک مہلت طلب کی جا رہی ہے ۔
 
وکیل شاہد حامد نے مریم نواز کی طرف سے دلائل مکمل کرنے کے بعد اسحاق ڈار کی وکالت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ 25اپریل 2000ءکو اسحاق ڈار نے مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیا ن دیا اور اسحاق ڈار نے بھی اعترافی بیان میں 14.866ملین ڈالر روپے کی منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا ۔درخواست گزاروں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم کے بھائی کیلئے اکاﺅنٹ کھلوائے گئے ۔
انہوں نے کا کہ الزام ہے سکندر مسعود طلعت مسعود کے نام سے وزیر اعظم کے بھائی کیلئے اکاﺅنٹ کھلوائے گئے جس پر جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیااسحاق ڈار اپنے بیان حلفی سے انکاری ہیں تو وکیل شاہد حامد نے جوا ب دیا کہ اسحاق ڈار اپنے بیان کی مکمل تردید کرتے ہیں ۔ فوجی بغاوت کے بعد انہیں پہلے گھر پر نظر بند رکھا گیا اور تعاون پر انہیں حکومت میں شمولیت کی پیشکش کی گئی اور مشرف حکومت میں ایک پہلے سے لکھے گئے بیان پر زبردستی دستخط کرائے گئے جبکہ بیان لینے کے بعد انہیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا ۔
شاہد حامد نے کہا کہ اسحاق ڈار 2001ءتک فوج کی تحویل میں رہے اور رہائی کے بعد کلاسرا کو تفصیلی انٹرویو میں اپنے بیان کی تردید کی ۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ اعترافی بیان عدالت عالیہ پہلے ہی مسترد کر چکی ہے جس پر وکیل شاہد حامد نے جواب دیا کہ 15اکتوبر 1999ءکو اسحاق ڈار کو حراست میں لیا گیا ۔ 1994ءمیں حدیبیہ انجینئرنگ اور حدیبیہ پیپر ملز کے خلاف 2ایف آئی اڑ کاٹی گئی ۔ میاں محمد شریف ، حسین ، عباس ، نوازشریف ، شہباز شریف اور حمزہ شبہاز نامزد تھے ۔ان ایف آئی آرز پر چالان پیش ہوا اور کیس کا فیصلہ 1997ءمیں ہوا ۔ ماتحت عدالت نے تمام نامزد ملزمان کیخلاف چالان ختم کرتے ہوئے بری کردیا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں صرف چالان ختم ہوا ، ایف آئی آر موجود ہیں ، بتایا جائے ایک درخواست میں صرف چالان ختم ہوا اور ملزمان بری ہو گئے یہ کیسے ممکن ہوا ۔جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ عدالت عالیہ رٹ پٹیشن میں ایسا فیصلہ کیسے دے سکتی ہے ؟ شاہد حامد نے کہا کہ یہ بیان صرف کاغذ کا ٹکرا تھا جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ کاغذ کا ٹکرا نہیں شواہد کا حصہ ہے جس پر کبھی کارروائی نہیں ہوئی ، نیب ریفرنس تحقیقات قانون کے تحت نہ ہونے پر خار ج ہوا اور ہائی کورٹ نے اس کیس کو تکنینکی بنیادوں پر ختم کیا تھا ۔
اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے موقف اپنایا کہ نیب ریفرنس میں بھی وہی الزامات لگائے گئے تھے جو ایف آئی اے نے مقدمے میں لگائے ۔1997ءمیں عدالت عالیہ ان الزامات پر ملزمان کو بری کر چکی ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اسحاق ڈار کیخلاف کیس میں 2ججز نے انٹرا کورٹ اپیل سنی جو عموماُُ 5ججز سنتے ہیں ۔شاہد حامد نے جواب دیا کہ پروٹیکشن قانون کے تحت الزام میں بری ہونے پر دوبارہ کارروائی نہیں ہو سکتی ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ جب پروٹیکشن قانون بناتو نوازشریف وزیراعظم اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے ؟ تو شاہد حامد نے جواب دیا کہ اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے اور نہ ہی ایم این اے۔ عدالت نے کہا کہ اسحاق ڈار منی لانڈرنگ کیس میں نیب کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنی چاہئیے تھی ۔ چیئرمین نیب اپیل میں سپریم کورٹ آتے تو ہم دوبارہ تفتیش کرنے کا حکم دیتے ۔ شریف فیملی کیخلاف 1994ءکی ایف آئی آر اور 2000ءکی ایف آئی آر میں کوئی تعلق نہیں ۔ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کا شریف فیملی کے فننانشل کرائم سے بھی کوئی تعلق نہیں ۔
 
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کسی بھی ملزم کو شامل تفتیش کیے بغیر کیس ختم کر دیا گیا ؟ تو شاہد حامد نے جواب دیا کہ اس وقت حمزہ شہباز کے علاوہ سب لوگ بیرون ملک تھے جس پر عدالت نے وکیل شاہد حامد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شامل تفتیش نہ ہو تو 12ارب کا معاملہ ختم کر دیا جائے گا ؟جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کیا اس قانون کے مطابق بیرون ملک اکاﺅنٹس کو بھی تحفظ حاصل تھا ، کیا فارن کرنی اکاﺅنٹس کو اکنامک ریفارمز میں پروٹیکشن دی گئی ؟ پاکستان میں موجود فارن کرنسی اکاﺅنٹس کو تحفظ دیا گیا ہے مگر بیرون ملک فارن کرنسی اکاﺅنٹس کو نہیں جس پر ایڈوکیٹ شاہد حامد نے جواب دیا کہ صرف ملک کے اندر اکاﺅنٹس کو تحفظ ھاصل تھا ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ نعیم بخاری نے بتایا تھا بیان حلفی کیس میں نیب نے اپیل نہیں کی ۔ کیا اسحاق ڈار کو بیان سے قبل وعدہ معاف گواہ بنایا گیا یا بعد میں َ؟ وکیل شاہد حامد نے جواب دیا کہ کیس 2گراﺅنڈز پر ذختم کیا گیا ، اسحاق ڈار کو اعترافی بیان دینے سے قبل وعدہ معاف گوا ہ بنایا گیا تھا ۔ حدیبیہ پیپز ملز کا ابتدائی ریفرنس 27مارچ 2000ءکو بنایا گیا اور حتمی ریفرنس 16نومبر 2000ءکو بنایا گیا ۔ 2012ءکو ریفرنس کو ہائیکورٹ کے 2ججز نے ختم کیا لیکن دوبارہ تفتیش پر اختلاف کیا جبکہ ریفری جج نے 2014ءکو دوبارہ تفتیش کیلئے اختلافی فیصلے میں تفتیش نہ کرانے کا فیصلہ دیا ۔ عدالت نے نیب سے نوازشریف اور اسحاق ڈار کیخلاف منی لانڈرنگ ریفرنس کی تفصیلات طلب کر تے ہوئے ریمارکس دیے کہ نیب بتائے کہ اسحاق ڈار کو مشروط یا غیر مشروط معافی نامہ دیا گیا ؟ نیب ریکارڈ اور دساویزات پیر تک عدالت میں جمع کرادے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ اسحاق ڈار کو معافی نامہ کیسے دیا گیا ۔دیکھنا چاہتے ہیں کہ اسحاق ڈار نے معافی نامے سے پہلے اعترافی بیان ریکارڈ کرا یا یا بعد میں ۔
اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے جواب دیا کہ چیئرمین نیب نے اسحاق ڈار سے کہا ریکارڈ چھان مارا مگر بدعنوانی سامنے نہیں لا سکے ۔ اسحاق ڈار اعترافی بیان کے باوجود 17ماہ تحویل میں رہے۔اس کے بعد سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں