Print this page

سندھ طاس معاہدے پرغفلت، پاکستان کے لئے سنگین نتائج

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد) اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے اپنی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان نے سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد میں غفلت جاری رکھی تو آئندہ چند برسوں میں یہاں پانی کی قلت سنگین ترین بحران کی صورت اختیار کرجائے گی۔
’’ڈیویلمپنٹ ایڈووکیٹ پاکستان‘‘ کے عنوان سے جاری ہونے والی اس رپورٹ کا لُبِ لُباب یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی کئی شقوں میں ابہام ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان اپنے مغربی دریاؤں پر مسلسل نئے ڈیم بنانے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے اب تک اس معاہدے کی مبہم اور متنازعہ شقوں کا سنجیدگی سے کوئی جائزہ نہیں لیا اور نہ اس سلسلے میں کوئی ٹھوس مطالعہ ہی مرتب کیا ہے؛ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں دریائی پانی مسلسل کم ہوتا جارہا ہے اور یہاں پر زراعت سے لے کر پینے کے صاف پانی تک کی قلت شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے اب تک دریائے سندھ کے سرحد پار سے آنے والے پانی کا کوئی مناسب مطالعہ نہیں کیا ہے جبکہ وہ سندھ طاس معاہدے سے متعلق بھارت سے اپنے تنازعات کا مقدمہ انڈس واٹر کمیشن یا ورلڈ بینک کے پاس لے جانے میں بھی مسلسل تاخیر کررہا ہے جس کی وجہ سے یہ معاہدہ ’’بظاہر کمزور‘‘ پڑتا جارہا ہے۔
رپورٹ میں صوبوں کے مابین عدم اعتماد کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جو سندھ طاس معاہدے کو کمزور بنانے اور صوبوں میں پانی کی منصفانہ تقسیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ یو این ڈی پی کے مطابق، اس حوالے سے صوبائی حکومتوں کے طرزِ عمل نے معاملے کو تکنیکی سے زیادہ سیاسی بنادیا ہے۔
اگرچہ پاکستان یا بھارت میں سے کوئی بھی سندھ طاس معاہدے کو ختم نہیں کرسکتا لیکن اپنی مبہم شقوں اور پاکستانی حکام کی غفلت کے باعث یہ معاہدہ بہت کمزور پڑچکا ہے جس کا نتیجہ آنے والے برسوں میں پورے پاکستان کےلئے بدترین آبی بحران کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں زیر زمین پانی کی سطح گزشتہ چند سال میں تشویش ناک حد تک کم ہوگئی ہے اور اس وقت 2 کروڑ 72 لاکھ پاکستانیوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ حکومت نے ہنگامی اقدامات نہ کئے تو صورتِ حال مزید بدتر ہوسکتی ہے۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں