Print this page

یہ وہ وجوہات تھی جن کی بنیاد پر میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے آپ کو رضاکارانہ طورپر پاک فوج کے حوالے کردوں

 

ایمزٹی وی(راولپنڈی)ہتھیار ڈالنے والے کالعدم تنظیم کے احسان اللہ احسان کا اعترافی بیان جاری کردیا گیا ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) نے احسان اللہ احسان کا اعترافی بیان جاری کیا جس میں اس نے اعتراف کیا کہ ”میرانام لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان ہے اور مہمند ایجنسی کا رہائشی ہوں،2008 ء کے اوائل میں کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی،کالج کا طالبعلم تھا اور مہمند ایجنسی کے ترجمان کے بعد ٹی ٹی پی کا مرکزی ترجمان رہا جبکہ کالعدم تنظیم جماعت الاحرار کا ترجمان بھی رہا ہوں“۔
احسان اللہ احسان کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ”ان 9 سالوں کے اندر ٹی ٹی پی میں بہت سی چیزوں کو دیکھا، تحریک طالبان نے اسلام کے نام پر لوگوں کو گمراہ کیا اور بے گناہوں کا قتل عام کیا،اسلام کے نام پر لوگوں بالخصوص نوجوان طبقہ کو گمراہ کرکے اپنے ساتھ ملایا گیا، ایسے نعرے لگاتے تھے جن پر یہ لوگ خود بھی پورے نہیں اترتے تھے،چند لوگوں کا مخصوص ٹولہ ہے جو امراء بنے بیٹھے ہیں،بے گناہ لوگوں کو مارتے ہیں اور مسلمانوں سے بھتہ لیتے،قتل عام کرتے
 
 
ہیں،عوامی مقامات پر دھماکے کرتے ہیں،سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں پر بھی حملے کرتے ہیں،مگر اسلام اس چیز کا درس نہیں دیتا“۔
احسان اللہ احسان نے اپنے ویڈیو بیان میں مزید اعتراف کیا کہ ”فوج کا قبائلی علاقوں میں آپریشن شروع ہواتوان لوگوں میں قیادت کی دوڑ مزید تیز ہوگئی، ہرکوئی چاہتا تھا کہ تنظیم کا لیڈر بنے، حکیم اللہ کی ہلاکت کے بعد نئے امیر کا سلسلہ شروع ہواتو انتخابی مہم چلائی گئی جس میں عمرخالد خراسانی، خان سعید سجنا، مولوی فضل اللہ شامل تھے، ہرکوئی اقتدار چاہتاتھاتوپھر شوریٰ نے فیصلہ کیا کہ قرعہ اندازی کی جائے، اس میں مولانا فضل اللہ امیر مقرر ہوئے“۔
اعترافی بیان میں احسان اللہ احسان کا کہنا تھا کہ”ایسی تنظیم سے کیا توقع رکھیں جس کا امیر قرعہ اندازی کے ذریعے منتخب ہوا ہو اور پھر امیر بھی ایسے شخص کو بنایاگیاجس کا کردارایسا ہے کہ انہوں نے اپنے استاد کی بیٹی کیساتھ زبردستی شادی کی اور اس کو ساتھ لیکرچلے گئے،ایسی شخصیات اور لوگ اسلام کی خدمات کررہے ہیں اور نہ ہی کرسکتے ہیں“۔
 
آئی ایس پی آر کی جاری کی گئی ویڈیو میں احسان اللہ احسان نے اعترافی بیان میں کہا کہ ”شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہوا توہم سب افغانستان چلے گئے،وہاں بھارت اور’را‘کیساتھ ان لوگوں کے تعلقات بڑھے جس میں انہوں نے ان لوگوں کو سپورٹ کیا اور مالی معاونت دیکر اہداف دیئے گئے،انہوں نے ہرکارروائی کی قیمت وصول کی، جنگجوؤں کو پاک فوج سے لڑنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود محفوظ ٹھکانوں میں چلے گئے، جب ’این ڈی ایس‘ اور’را‘سے مدد لینا شروع کی تو میں نے خالد خراسانی سے کہاکہ ہم توکفار کی مدد کررہے ہیں تو انہوں نے کہاکہ پاکستان میں تخریب کاری کیلئے مجھے اسرائیل کی بھی مدد لینا پڑی تو لے لوں گا، خالد خراسانی کی اس بات سے میں سمجھ گیا کہ ایک خاص ایجنڈے کے تحت اپنے ذاتی مقاصد کیلئے سب کچھ کیا جارہاہے“۔
احسان اللہ احسان نے کہا کہ ”کالعدم تنظیموں نے افغانستان کے اندر کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں جو’ر‘ا اور’این ڈی ایس‘سے ان کے ذریعے رابطے رکھتے ہیں، جنہوں نے باقاعدہ ’تذکرے‘ دیئے ہوئے تھے کہ یہ آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوسکیں، ’تذکرہ‘ افغانستان کا قومی شناختی کارڈ ہے جس طرح پاکستان میں شناختی کارڈ ہوتاہے، یہ ان کے پاس نہ ہوتو افغانستان کی سیکیورٹی صورتحال کو مد نظررکھتے ہوئے نقل و حرکت مشکل کام ہے، اس سے افغانستان فورسز کیساتھ رابطہ بھی رہتاتھا اور ان اس کے ذریعے پاکستان میں شامل ہونے کیلئے راستہ فراہم کیا جاتا تھا۔پاک فوج کے حالیہ آپریشنز کے بعد خصوصاً افغانستان کے علاقے پرچہ اور لال پورہ کے علاقے میں جماعت الاحرار کے جو کیمپس تباہ ہوئے،اس میں کچھ کمانڈرز بھی مارے گئے اور ان کو وہ علاقہ ہی چھوڑنا پڑ گیا، مرکز چھوڑنے کے بعد کمانڈر اور نچلے طبقے کے جنگجوؤں میں بھی ایک خاص قسم کی مایوسی پھیل گئی“۔
آخر میں احسان اللہ احسان نے اپنے بیان میں پیغام دیتے ہوئے کہا کہ”وہاں پر پھنسے ہوئے کو اور وہاں سے نکلنے کے خواہشمندوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اب بس کرو، امن کا راستہ اختیار کرو اور پرامن زندگی میں واپس آجاؤ، آپریشنز کے بعد جب میڈیا میں ان لوگوں کو کوریج ملنا کم ہوگئی تو انہوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے کم عمراور معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، ان کو اسلام کے نام پر ورغلایا گیا اور اسلام کی غلط تشریح کرکے ایسے پیغامات جاری کئے گئے اور پراپیگنڈا سوشل میڈیا پر شیئر کیا کہ نوجوان ان کے جال میں پھنستے چلے گئے۔ سوشل میڈیا صارفین کو کہناچاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے پراپیگنڈے میں نہ آئیں، یہ لوگ اپنے ذاتی مقاصد کیلئے غیروں کے ہاتھ میں چل رہے ہیں، یہ وہ وجوہات تھی جن کی بنیاد پر میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے آپ کو رضاکارانہ طورپر پاک فوج کے حوالے کردوں“۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں