جمعہ, 19 اپریل 2024


پاناماکیس کی سماعت، خریداری کیلئے پیسہ کہاں سے آیا؟ عدالت

 

ایمزٹی وی (اسلام آباد)سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر جسٹس اعجا ز افضل کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجا ز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ پاناما عملدرآمد کیس کی تیسری سماعت جاری ہے تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری ، جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے دلائل مکمل ہونے کے بعد آج وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث نے بھی اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں ۔
سماعت شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم نے رشتہ داروں کی جائیداد کو نہیں چھپایا ، جے آئی ٹی کے پاس کچھ ہوتا تو سوال ضرور کرتی ۔ وزیر اعظم کی کوئی بے نامی جائیداد نہیں ۔ انہوں نے ٹیکس ریٹرن میں اثاثے ظاہر کیے ۔ وزیر اعظم کا کسی ٹرانزیکشن سے کوئی تعلق نہیں ، جے آئی ٹی نے لندن فلیٹس سے متعلق غلط نتائج اخذ کیے۔ کیا وزیر اعظم ان اثاثوں کے لیے جواب دہ ہیں جو انکے ہیں ہی نہیں۔ فلیٹس سے متعلق تمام امور میاں شریف سر انجام دیتے تھے۔ بچے 1995ءتک زیر کفالت تھے صرف اس عرصہ کا وزیر اعظم سے پوچھا جا سکتا ہے۔جے آئی ٹی نے مزید کسی اثاثے سے متعلق سوال نہیں کیا ۔ وزیر اعظم کے ڈکلیئر اثاثوں کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں ، بیوی بچوں کے اثاثو ں کا کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھرایا جا سکتا ۔ کسی منسلک شخص کے اثاثوں سے فائدہ اٹھانے والا ملزم نہیں ہو سکتا۔ کسی کے گھر جا کر رہنے والے سے اس گھر سے متعلق نہیں پوچھا جا سکتا جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ قانون میں آمدن اور اثاثوں کے ذرائع کا تذکرہ ہے، قانون میں اس شخص کا بھی ذکر ہے جس کے قبضے میں اثاثہ ہو ۔آپکے مطابق کسی کے گھر رہنے والے پر نیب قانون کا اطلاق نہیں ہو گا ؟زیر استعمال ہونا اور بات ہے ، اثاثے سے فائدہ اٹھاناالگ بات ہے۔ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں دوسرے کے گھر کچھ عرصہ رہنے والا ملزم نہیں بن سکتا؟لگتا ہے بے نامی دار کی تقریف لکھتے وقت نیب قانون میں کوئی غلطی ہوئی ہے، بے نامی دار کی اصل تعریف ہم سب جانتے ہیں اور مانتے بھی ہیں ۔ جے آئی ٹی نے معلوم کروایا کہ مریم نواز بینی فشل مالک ہیں اور باہمی قانونی معاونت سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ٹریجڈی یہ ہے کہ کون مالک ہے اس کی دستاویزات بھی موجود نہیں ۔ امگر مالک کا پتہ چل جائے تو یہ سوال آتا ہے کہ خریداری کیلئے پیسہ کہاں سے آیا ؟ساری چیزیں ہیں ، آنکھیں بند نہیں کریں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اثاثے جس کے زیر استعمال ہوں وہ بھی بے نامی دار ہو سکتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ پراپرٹی کب خریدی گئی ، فنڈ کہاں سے آئے اور کہاں گئے؟وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وہ سب کی منی ٹریل دیں گے ۔ وزیر اعظم نے یہ جواب نہیں دیا پراپرٹی کب خریدی اور فنڈ کہاں سے آئے ۔ فلیس کی خریداری کے فنڈز برطانیہ کیسے پہنچے؟فنڈز سعودی عرب دبئی یا قطر میں تھے ، سوال یہ ہے کہ فنڈز کیسے لندن پہنچے ۔ منی ٹریل کہاں ہے ، جواب نہیں دیا جا رہا ۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کیلئے کب اور کس نے ادائیگی کی ؟وزیر اعظم نے کہا انکے پاس تمام دستاویزات کی منی ٹریل موجود ہے مگر عدالت کے سوالوں کے جواب نہیں دیے جا رہے۔ نیلسن اور نیسکول سے متعلق کوئی دستاویزات نہیں دی گئی۔ منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں دیا گیا ۔میاں شریف نے فنڈز کہاں سے اور کیسے منتقل کیے، بنیادی سوال کا جواب مل جائے تو بات ختم ہو جائے گی ۔وزیر اعظم کو علم تھا کہ وہ اسمبلی میں کیا کہہ رہے ہیں ، وزیر اعظم نے خود کہا تھا کہ میں بتاﺅں گا کہاں سے فلیٹ لیے۔ حسین نواز نے کہا کہ وہ مالک ہیں مگر دستاویزات نہیں دی گئیں ۔ یہ فرض کر لیں کہ یہ میاں شریف کے ہیں تو کچھ شیئر تو نوازشریف کا بھی ہو گا۔ وزیر اعظم ہوں یا حسین نواز ،دونوں زبانی کہہ رہے ہیں۔
بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ مہینوں سے سن رہے ہیں فلیٹ ملکیت کے علاوہساری چیزیں واضح ہیں۔ اس کیس کے تمام پہلو ہم پر واضح ہیں ۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وزیراعظم خو د کسی پراپرٹی کے مالک ہیں ۔ ہم مسلسل ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں۔دیکھنا ہے فیصلہ ہم نے کرنا ہے یا معاملہ ٹرائل کورٹ کو بھیجنا ہے۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment