Print this page

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تعیناتی قانون کے مطابق ہوئی ہے

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بحیثیت بلوچستان ہائی کورٹ چیف جسٹس تعیناتی کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔
درخواست گزار حنیف راہی کے وکیل علی ظفر نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ بار کاموقف ہے کہ ججز تقرری کا طریقہ عدلیہ کی آزادی کے لیے اہم ہے اور ہمارا موقف ہے اگر یہاں جج کی تقرری کامعاملہ آیا تو قانون پر عمل ہوناچاہیے، کئی فیصلوں میں تقرریوں کی شفافیت کاعدالت کہہ چکی ہے۔ 5 اگست 2009 کو پہلا نوٹی فکیشن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس لگانے کا ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس نوٹی فکیشن میں کیاخرابی ہے، جب پوری ہائی کورٹ فارغ ہوگئی تو صورتحال پر 196 لاگو نہیں ہوگا، پہلے چیف جسٹس کی تقرری آرٹیکل 193 کے تحت کرنا تھی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا چیف جسٹس کے بغیر کسی جج کی تقرری ہوسکتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ بغیر چیف جسٹس جج کی تقرری نہیں ہوسکتی۔ حقائق بتاتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعیناتی قانون کے مطابق ہوئی ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کے دلائل سننے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی تقرری کے خلاف درخواست خارج کردی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 31 جولائی 2009 کو سابق صدرپرویز مشرف کی جانب سے 3 نومبر 2007 کو لگائی گئی ایمرجنسی کے تحت پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے عدالت عالیہ و عظمیٰ کے فاضل ججوں کو ان کے عہدوں سے ہٹادیا تھا۔ عدالتی فیصلے کی روشنی میں بلوچستان ہائی کورٹ کے تمام جج فارغ ہوگئے تھے، آئینی بحران سے بچنے کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلے نوٹی فکیشن میں بلوچستان ہائی کورٹ کا جج اور پھر اسی وقت اُنھیں بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کردیا گیا تھا۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں