Print this page

آرمی چیف مدت ملازمت میں توسیع، جوعہدہ خالی ہی نہیں اس پرتعیناتی کیسےہو سکتی ہے

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔
 
میڈیا ذرائع کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت شروع کردی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور اور بیرسٹر فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوگئے۔
 
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کردی گئی ہے جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئی تعیناتی 243 (1) بی کے تحت کی گئی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا، اب ہونے والی تعیناتی درست کیسے ہے، سمری میں تو عدالتی کارروائی کا بھی ذکرکردیا گیا ہے۔
 
 
 
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں، ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیں، عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں، سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں، آج سے تعیناتی 28 نومبر سے کردی گئی، آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں، جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے، لگتا ہے اس بار کافی سوچ بچار کی گئی ہے، عدالت کی ایڈوائس والا حصہ سمری سے نکالیں ، صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے۔ جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ہے۔
 
 
 
آرمی چیف کی تعیناتی قانون کے مطابق ہونی چاہیے، قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی ہوئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر مدت مقرر نہ کریں تو تاحکم ثانی آرمی چیف تعینات ہوگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز کی کتاب آپ نے سینے سے لگا کر رکھی ہے، آرمی رولز بھی کتاب پر لکھا ہے غیر متعلقہ بندہ نہ پڑھے۔
 
 
 
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے توسیع ہوتی رہی اور کسی نے جائزہ نہیں لیا، کوئی دیکھتا نہیں کہ کنٹونمنٹ میں کیا ہو رہا ہے، کس قانون کے تحت کوئی کام ہو رہا ہے، اب آئینی ادارہ اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے، آئینی عہدے پر تعیناتی کا طریقہ کار واضح لکھا ہونا چاہیے۔ عدالت میں آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کی سمری عدالت میں پیش کی گئی جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ سمری میں آرمی چیف کی تنخواہ کا ذکر ہے نہ مراعات کا۔
 
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سی آئی اے ایجنٹ کہا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں ففتھ جنریشن وار کا حصہ ٹھہرایا گیا، یہ ہماراحق ہے کہ سوال پوچھیں۔ جسٹس منصورنے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھے ہونگے، آپ تجویز کریں آرمی قوانین کوکیسے درست کریں۔
 
 
 
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مدت نوٹیفکیشن میں 3 سال لکھی گئی ہے، اگر زبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے، ایک واضح نظام ہونا چاہیے جس کا سب کو علم ہو، 3 سال تعیناتی اب ایک مثال بن جائے گی، ہو سکتا ہے اگلے آرمی چیف کو حکومت ایک سال رکھنا چاہتی ہو۔
 
سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی توسیع اور جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کہیں نہیں لکھا کہ جنرل کیانی کو توسیع کس نے دی تھی، جس قانون کے تحت توسیع دی گئی اس کا بھی حوالہ دیں، اتنے اہم عہدے کے لیے تو ابہام ہونا ہی نہیں چاہیے۔
 
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سمری نوٹیفکیشن میں عدالت عظمی کا ذکر نہ کریں، سمری میں عدالت کو بھی بریکٹ میں ڈال دیا گیا تاہم عدالت عظمی کا سمری سے کوئی تعلق نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان کا کام ہے ملکی دفاع پر توجہ دیں، یہ ان کے وقت کا ضیاع ہے کہ وہ آپ کی غلطیاں نکالیں، وہ خود رہنمائی کرنے پہنچ گئے، یہ سب تو باعث شرمندگی ہے۔
 
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ تو کہتے ہیں حکومت نے کوئی غلطی نہیں کی جب کہ 6 ماہ میں قانون سازی نہ ہوئی تو کیا تقرری غیرقانونی ہوجائے گی، 6 ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کرلیں، حکومت وقفے کے دوران نوٹیفکیشن اور سمری میں درستگی کرے، شام کو مختصر فیصلہ جاری کریں گے۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت دوپہر ایک بجے تک ملتوی کردی۔
 
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کاحکم نامہ معطل کردیا تھا۔

پرنٹ یا ایمیل کریں