Print this page

اپنے ملک سے مایوس افراد کی یورپ پہنچنے کی کوششیں-

ایمز ٹی وی(فارن ڈیسک)ستمبر کے اوائل میں بکر خاندان کے 23 افراد انسانی سمگلروں کی پرہجوم کشتی میں بیٹھ کر یورپ کے سفر پر روانہ ہوئے جن میں سے ایک ہی اپنے منزل مقصود کو پہنچا-بچنے والوں کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں نے ایک چھوٹی کشتی پر منتقل ہونے سے انکار کر دیا تھا جو ان کے خیال میں کھلے سمندر کے سفر کے لیے موزون نہیں تھی۔ سمگلروں نے ان کی کشتی ڈبو کر بحث کا خاتمہ کر ڈالا۔ بکر خاندان فلسطینی ہے۔ یہ حالیہ برسوں میں ان کے لیے دوسرا بڑا سانحہ ہے۔ حماس نے 2007 میں انھیں غزہ سے بےدخل کر دیا تھا۔بکر خاندان شمالی مصر کے علاقے دمیاط سے سفر پر روانہ ہوا تھا۔ یہ انسانی سمگلروں کا گڑھ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں ساحل پر روانگی کے 20 مقامات ہیں-بڑے سمگلر زیرِ زمین رہتے ہیں اور صرف اپنے القاب سے جانے جاتے ہیں، مثلاً ابو حمادہ، جنھیں ڈاکٹر اور کپتان بھی کہا جاتا ہے، اور جنرل۔بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرین کے مطابق صرف اس سال بحیرۂ روم میں تین ہزار سے زیادہ لوگ ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم یورپی سرحدی ادارے فرونٹیکس کا کہنا ہے کہ اس سال 182156 افراد یورپ پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ تعداد 2013 کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے-

پرنٹ یا ایمیل کریں