جمعرات, 18 اپریل 2024


ضیاء الدین یونیورسٹی میں نویں زیڈیو ڈائیلاگ کا اہتمام

کراچی : ضیاء الدین یونیورسٹی کی پبلک ریلیشنز اینڈ کمیونی کیشنز ڈپارٹمنٹ کی جانب سے’’ ہمارے معاشرے میں صنفی شمولیت کو مرکزی دھارے میں لانا ‘‘ کے موضوع پر نویں زیڈ یو ڈائیلاگ کا اہتمام کیا گیا

جس کا مقصد پیشہ وارانہ ترقی ، قیادت کے مواقع اور دیگر پیشہ وارانہ معاملات میں امتیازی سلوک روا رکھے جانے پر ماہرین کی رائے اور تجزیہ حاصل کرنا تھا ۔

مباحثے میں ضیاء الدین یونیورسٹی کی پرو چانسلر ڈاکٹر ندا حسین ، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹرکی سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی ، انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارم کی ڈائریکٹر بورڈ ڈاکٹر خالدہ غوث، ویمن چیمبر آف کامرس کراچی ساوتھ کی سینئر وائس پریزیڈنٹ مصباح اسحاق اور گلوبل نیبرہوڈ فار میڈیا انوویشن کی پریزیڈنٹ ناجیہ اشعر نے شرکت کی۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ندا حسین کا کہنا تھا کہ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان اس وقت صنفی مساوات کے حوالے سے دنیا کا سب سے کم ترین ملک ہے۔ ہمارا تعلق ایک مختلف ایک معاشرے سے ہے۔ کچھ کو آزادی حاصل ہے اور کچھ اسے برا سمجھتے ہیں۔ اور وہ بھی ہیں جنہیں خواتین کی تعلیم پر اخراجات کو پیسے کا ضیاع سمجھتے ہیں۔

صنفی عدم مساوات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ندا کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہ کر مذہبی اعتبار سے خواتین اور مرد دونوں کو مکمل آزادی اور احترام دیا جاتا ہے لیکن معاشرہ ایسا کرنے سے قاصر ہے۔ ہمارے یہاں کچھ کمیونیٹی ایسی ہیں جہاں خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، جبری شادی پر مجبور کیا جاتا ہے۔

اس موقع پر ڈاکٹر خالدہ غوث کا کہنا تھا کہ اب وقت بدل گیا ہے اب اکیسویں صدی کا زمانہ ہے۔ خواتین گھریلو ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمتیں بھی سنبھال سکتی ہیں۔ آج جس طرح سے مہنگائی اور غربت بڑھ رہی ہے خواتین کو مکمل پیشہ وارانہ فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے گھر کا انتظامات اور معاملات چلا نے کے لیے مرد و خواتین ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب ہم صنف کو مرکزی دھارے میں لانے کی بات کرتے ہیں تو معاشرے میں کئی رکاوٹوں اور تنازعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کے اثرات ہمارے معاشرے پر پڑتے ہیں۔

خواتین کو ہمارے معاشرے میں مساوی حقوق پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ اسلام ہمیں عزت اور وقار کے ساتھ کام کرنے کا حق دیتا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں خواتین کی تعلیم پر کام کرنے کی ضرورت ہے اسے عام کرنا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں خواتین کی تعلیم کو کوئی اہمیت نہیں مل رہی ہے۔ تعلیم صرف آپ کو سکھاتی ہے اور رہنمائی ہی نہیں کرتی بلکہ یہ ہر طرح سے ہماری اصلاح بھی کرتی ہے۔

مصباح اسحاق نے ایک ورکنگ وومن ہونے کے اپنے تجربے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں میڈیا کے شعبے سے گزشتہ تیس برس سے منسلک ہوں۔ میرے گھر اور کام کو ایک ساتھ سنبھالنا آسان نہیں تھا لیکن میں نے کسی نہ کسی طرح سے اپنی دونوں ذمہ داریاں سنبھالیں۔ ہماری زندگی میں گھر والوں کا اعتماد حاصل کرنا بہت ضروری ہے جو آپ کو ایک بہتر انسان بناتا ہے او ریہ اعتماد آپ کو گھر کے مرد حضرات سے ہی ملتا ہے۔

پاکستا نی ڈراموں میں خواتین کو خود مختار ہونے کی تصویر کشی کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ناجیہ اشعر کا کہنا تھا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ ہمارا میڈیا ثقافتی تاثرات اور صنف کے بارے میں رویہ کو بہتر یا بدتر بنا سکتا ہے۔ ٹیلی وژن ڈرامے جو مواد تیار کررہے ہیں وہ اس پر منحصر ہے کہ آپ اسے کیسے جذب کرتے ہیں۔ اگر کوئی ڈرامہ خواتین کو خود مختار بناکر دکھا رہا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مردوں کو عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہم خواتین آج جس مقام پر ہیں اس تک پہنچانے میں ہمارے مردوں نے ہی ہمارا ساتھ دیا ہے۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment