Print this page

فیفا چیمپئن کا تاج کس کے سر سجے گا

 
ایمزٹی وی(اسپورٹس)دنیائے فٹبال کے نئے بادشاہ کا فیصلہ اتوار کو ہوگا، فرانس اور کروشیا نے گولڈن ٹرافی پر قبضے کیلیے آستینیں چڑھالیں، فیصلہ کن جنگ کیلیے میدان سج گیا۔

فیفا ورلڈ کپ اپنی آخری منزل کو پہنچ چکا جہاں اب صرف نئے چیمپئن کا فیصلہ ہونا باقی ہے، روس میں جاری میگا ایونٹ میں اب تک کھیلے گئے 63 میچز کافی ہنگامہ خیز اور کئی قسم کے ڈراموں سے بھرپور رہے، اس میں شائقین کو شاندار گول بھی دیکھنے کو ملے اور انھوں نے اپ سیٹ ہوتے ہوئے بھی دیکھے،آخر میں2 ٹاپ ٹیمیں فرانس اور کروشیا کی صورت میں اُبھر کر سامنے آئیں، ان کے درمیان اب گولڈن ٹرافی کیلیے دودو ہاتھ ہوں گے۔

یہ ٹیمیں20 برس قبل کھیلے گئے شوپیس ایونٹ کے سیمی فائنل میں ایک دوسرے سے ٹکرا چکی ہیں، تب 1998 میں میزبان فرنچ سائیڈ نے کامیابی حاصل کی تھی اور اب کروشین ٹیم اپنے ہیروزکی ناکامی کا بدلہ لینے کی ٹھان چکی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تب کروشیا نے ورلڈ کپ میں اپنی پہلی ہی انٹری کو فائنل فور میں رسائی پاکر یادگار بنایا تھا،اب دونوں ٹیموں کے درمیان پرانی دشمنی کی چنگاری ماسکو کے لوزینکی اسٹیڈیم میں بھڑکنے والی ہے جس میں قسمت بھی اپنا کھیل کھیلنے کو پوری طرح تیار ہے۔ 

اس میچ میں ڈیڈائر ڈیش چیمپس بطور پلیئر اور کوچ ٹیم کو میگا ٹائٹل جتوانے والے تاریخ کے تیسرے شخص بن سکتے ہیں۔ اگرچہ دونوں ٹیموں کے درمیان ماضی کے حوالے سے گہرا تعلق موجود ہے مگر توجہ نئے معرکے پر ہی مرکوز ہے۔ منگل کو پہلے سیمی فائنل میں فرانس کی ٹیم زیادہ متحرک اور مضبوط رہی جس نے ریڈ ڈیولز کی عرفیت رکھنے والے بیلجیئم کو 1-0 سے مات دی تھی۔

دوسری جانب بدھ کو دوسرے فائنل فور میچ میں کروشیا کو انگلش ٹیم کو ٹھکانے لگانے کیلیے اضافی وقت کی ضرورت پڑی تھی، یہ مسلسل تیسرا میچ تھا جس میں انھیں مقررہ وقت میں کامیابی حاصل نہیں ہوپائی،اب دنیاکو اس بات کا انتظار ہے کہ کروشیا کی ٹیم اپنے 98 کے ہیروز سے زیادہ بہتر ثابت ہوپاتی ہے یا پھر فٹبال کے سب سے بڑے میچ میں قسمت حریف سائیڈ پر مہربان رہتی ہے۔

فرنچ سائیڈ کیلیے اگلا قدم خوبصورت ہونے کے ساتھ بھیانک بھی ہوسکتا ہے، ابھی تک کھلاڑی یورو 2016 کے فائنل میں پرتگال کے ہاتھوں شکست کو فراموش نہیں کر پائے ہیں، البتہ ناک آؤٹ میچز میں فرنچ پلیئرزاپنے کھیل کی جانب زیادہ متوجہ دکھائی دیے، وہ کسی بھی قسم کی سہل پسند کا شکار نظر نہیں آتے اور پہلے ہی یہ بات واضح کرچکے کہ فائنل کو بھی ایک عام مقابلے کی طرح ہی کھیلیں گے، مگر انھیں فیصلہ کن کامیابی کیلیے کروشینز کے فزیکل چیلنج سے بھی نمٹنا ہوگا۔

انگلینڈ کے خلاف  میچ میں پوری دنیا دیکھ چکی کہ کروشین پلیئرز میچ کے آخر تک کتنے خطرناک رہتے ہیں مگر فرانس بھی اپنی مضبوطی کا مظاہرہ اچھی طرح کرچکا ہے۔ کوئی بھی اس بات کی توقع نہیں کررہا تھا کہ کروشین ٹیم اس منزل تک پہنچے گی مگر جس طرح کا انھوں نے کھیل پیش کیا وہ واقعی اس جگہ کے مستحق تھے، وہ تھکے نہیں اور یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ اس ٹورنامنٹ کے دوران انھوں نے اپنی حریف سائیڈ کی بانسبت 90 منٹ زیادہ میدان میں گزارے،اگر وہ ایک رکاوٹ اور دور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر نئی تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

لوکا موڈرک کی قیادت میں یہ ’گولڈن جنریشن‘ فائنل کے حوالے سے خود پر کسی قسم کا دباؤ محسوس نہیں کررہی، اس کے 2 اہم کھلاڑی ماریو مینڈزوکک اور ایوان ریکٹک ماضی میں یوئیفا چیمپئنز لیگ کے فائنلز میں گول کرچکے ہیں، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پوری ٹیم اچھی طرح جانتے ہے کہ انھیں تاریخ میں ہمیشہ کیلیے زندہ ہوجانے کیلیے صرف ایک فتح اور درکار ہے۔

 
 

پرنٹ یا ایمیل کریں