جمعہ, 19 اپریل 2024

Displaying items by tag: Health

ایمز ٹی وی ( صحت) اٹلی کے ایک گاﺅں جہاں ہر دس میں سے ایک سے زائد فرد کی عمر سو سال تک پہنچ چکی ہے، نے طویل العمری کے راز کا انکشاف کیا ہے جو صحت بخش غذا کا استعمال ہے۔ یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ روم کے سپینزا یونیورسٹی اور سان ڈیاگو اسکول آف میڈیسین کی مشترکہ تحقیق کے دوران ماہرین نے چھ ماہ اس بات کو جاننے میں لگائے کہ اسیارولی نامی گاﺅں کے رہائشیوں کی عمریں اتنی طویل کیوں ہوتی ہیں۔

تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ اس گاﺅں کے رہائشیوں کے اندر امراض قلب، ڈیمینشیا اور دیگر امراض کے خلاف قدرتی مدافعت موجود ہے۔ سات سو افراد پر مشتمل اس گاﺅں کے 81 افراد کی عمریں سو سال سے تجاوز کرچکی ہیں اور مقامی افراد کے مطابق اس کی وجہ زیتون کا تیل، سبزیاں، مچھلیاں اور پھلوں کا استعمال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم صرف صحت بخش غذا استعمال کرتے ہیں جو تازہ ہوتی ہے اور اکثر ہم نے خود اگائی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم گوشت کے لیے اپنی مرغیاں اور مچھلیاں پالتے ہیں اور زیتون کے تیل میں ہی غذا کو پکاتے ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج کو ایک کانفرنس میں پیش کیا گیا جہاں محققین کا کہنا تھا کہ طویل العمری اور صحت مندی کا انحصار متعدد عناصر پر ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس گاﺅں کے لوگ جسمانی طور پر متحرک ہوتے ہیں اور اپنے روزمرہ کے کام خود کرتے ہیں جو جسمانی افعال کو درست رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

ایمزٹی وی(لاہور) کانگو وائرس پر قابو پانے کے لیے حکومتی اقدامات نہ کرنے کے خلاف عدالت سے رجوع کرلیا گیا ہے۔

درخواست گزار نے استدعا کی ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقع پرحکومت کو کانگو وائرس کی روک تھام کے لیے ٹھوس اور خصوصی اقدامات کرنے کا حکم دیا جائے۔

لاہور ہائیکورٹ میں درخواست جوڈیشل ایکٹو ازم پینل کی جانب سے دائر کی گئی ہے جس میں وزارت صحت اور وزرات خزانہ سمیت مختلف سرکاری محکموں کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ محکمہ صحت پنجاب نے کانگو وائرس کی روک تھام کےلیے کوئی مؤثر اور ٹھوس اقدامات نہیں کیے محض زبانی جمع خرچ کیا جارہا ہے

جبکہ عید قرباں نزدیک ہے اور لاکھوں کی تعداد میں جانور ملک کے ایسے حصوں سے لائے جا رہے ہیں جہاں اس وائرس کے متعلق آگاہی تک نہیں۔

جس کی وجہ ویکسینیشن سمیت دیگر احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جاتیں اور جانوروں کی ویکسینیشن نہ ہونے سے کانگو وائرس ملک بھر میں پھیلنے خطرہ ہے۔

درخواست گزار کے مطابق شرعی احکامات اور آئین پاکستان کے تحت ریاست عوام کے مال وجان کے تحفظ کی ذمہ دار ہے مگر حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔

کانگو وائرس سے کئی افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور لوگوں کی کافی بڑی تعداد اس موذی وائرس سے متاثر ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کانگو وائرس پاکستان میں پھیل رہا ہے تاہم وزارت صحت کی جانب سے اس جان لیوا وائرس کے خلاف اقدامت کے لیے وارننگ تک جاری نہیں کی گئی۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ابھی تک حکومت کی جانب سے عوام کی آگاہی کے لیے نہ تو مہم شروع کی گئی ہے اور نہ ہی سرکاری ہسپتالوں میں اس کی ویکیسین موجود ہے جس سے یہ خدشہ ہے کہ اس بار عید قرباں پر یہ وائرس تیزی سے پھیل سکتا ہے۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ کانگو وائرس کی روک تھام اور اس سے بچاؤ کے لیے کئے گئے احتیاطی اقدامات کے متعلق حکومت سے تمام تفصیلات طلب کی جائیں اور حکم دیا جائے کہ اس موذی وائرس کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں

ایمز ٹی وی (صحت) آج کل وہ بچے بھی موبائل فون اور ٹیبلٹ استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے بولنا بھی شروع نہیں کیا ہوتا لیکن ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ بچوں میں موبائل فون کے استعمال کی صحیح عمر کا تعین کرنا خود ان کے لیے بہت ضروری ہے۔
بچوں کی نفسیات کی ماہر ڈاکٹر شاشی ڈالوی کا اس بارے میں کہنا ہےکہ بہت چھوٹی عمر میں موبائل اور ٹیبلٹ کا استعمال بچوں کی نشوونما پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور وہ بہت سی ایسی جسمانی اور ذہنی سرگرمیوں میں ٹھیک سے حصہ نہیں لے پاتے جو زندگی کے اس موقعے پر اُن کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ ان میں تعلیم و تدریس سے لے کر کھیل کود تک متعدد سرگرمیاں شامل ہیں جنہیں بچوں کی صحت اور سیکھنے کی صلاحیت بہتر بنانے کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر شاشی کی رائے میں بچوں کے لیے موبائل فون اور ٹیبلٹ کا استعمال شروع کرنے کی صحیح عمر 14 سال ہے لیکن اس کا انحصار بچوں کے طرزِ عمل اور مختلف چیزوں میں دلچسپی سے ہے۔ یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جب بچے نوبلوغت میں داخل ہورہے ہوتے ہیں اور فطری طور پر اپنے لیے زیادہ آزادی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس بات کا اظہار وہ اپنے رویے اور عادات میں تبدیلیوں کے ذریعے کرتے ہیں۔

ایمز ٹی وی (صحت) وہ والدین جو مختلف نفسیاتی مسائل یا ذہنی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں ان کے بچوں میں شدت پسندی اور خودکشی کا رجحان بڑھ سکتا ہے۔ جاما سائیکیٹری نامی ریسرچ جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے شریک مصنف اور یونیورسٹی آف مانچسٹربرطانیہ کے ڈاکٹر راجر ویب کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جو ذہنی امراض یا نفسیاتی پریشانیوں میں مبتلا ہوں اور کسی نہ کسی صورت ان کا اظہار بھی کرتے رہتے ہوں، ان کے بچوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ وہ تشدد پر آمادہ ہونے کے علاوہ کم عمری ہی میں خودکشی کی کوشش بھی کرسکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں میں خودکشی اور پرتشدد رجحانات کی وجہ جینیاتی یعنی والدین سے وراثت میں ملنے والی بھی ہوسکتی ہے اور گھریلو حالات کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہے۔
اس مطالعے میں 1967ء سے 1997ء کے دوران ڈنمارک میں پیدا ہونے والے 17 لاکھ سے زائد افراد کے کردار کا 15 سال کی عمر کو پہنچنے تک کا مشاہدہ کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ ان میں سے 2.6 فیصد افراد نے اپنی زندگی کے پندرہویں سال سے پہلے ہی خودکشی کی کوشش کی تھی جبکہ 3.2 فیصد اسی عرصے کے دوران کم از کم ایک مرتبہ مار پیٹ اور تشدد کی وجہ سے گرفتار کئے جاچکے تھے۔ اور یہ سب کے سب لوگ وہ تھے جن کے والدین کسی نہ کسی نفسیاتی مسئلے یا بیماری میں مبتلا تھے۔
مزید معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو کسی بھی قسم کی نفسیاتی بیماری یا مسئلے کا شکار تھے، ان کے بچوں میں بھی تشدد اور خودکشی کے رجحانات زیادہ تھے۔ البتہ ایسے رجحانات کا امکان ایسے بچوں کےلئے زیادہ نمایاں تھا جن کے والدین میں غیر متوازن مزاج (موڈ ڈس آرڈر)، بائی پولر ڈس آرڈر اور غیر سماجی طرزِ عمل سے متعلق نفسیاتی مسائل کی باقاعدہ تشخیص ہوچکی تھی جب کہ وہ بھنگ کا غلط استعمال کرتے رہنے کے علاوہ خودکشی کی کوشش بھی کرچکے تھے۔

ایمز ٹی وی (صحت) اگر آپ بلڈ پریشر کا شکار ہیں اور اس کا علاج کرانا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ کافی پینا ترک کردیں کیونکہ اس میں موجود اجزا دوا کی تاثیر کو زائل کرسکتے ہیں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آبادی کا ایک بڑا حصہ بلڈ پریشر کے باعث مختلف امراض کا شکار ہے اور وہ کافی بھی پیتا ہے۔ مطالعوں سے معلوم ہوا ہے کہ کیفین والی کافی بلڈ پریشر بڑھا سکتی ہے لیکن کیفین سے پاک یعنی ڈی کیفینیٹیڈ کافی سے یہ اثرات نہیں ہوتے۔
بین الاقوامی طبی جریدے امریکن جرنل آف ہائپرٹینشن میں لندن کی ویسٹرن یونیورسٹی اور کینیڈا کے لاسن ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کی مشترکہ تحقیق شائع کی گئی ہے، ماہرین نے اپنی تحقیق کے لیے ایسے لوگوں کاانتخاب کیا جو باقاعدگی سے یا پھر کبھی کبھار کافی پیتے تھے۔ ماہرین نےااپنی تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جو لوگ کبھی کبھار کافی پیتے ہیں، اگر وہ دو کپ کافی پی لیں تو ایک گھنٹے کے اندر اندر ان کا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح سے بلڈ پریشر کے ٹیسٹ متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر شوقیہ بھی کبھی کبھار کافی پی لی جائے تو اس سے بلڈ پریشر کی دوا کی تاثیر متاثر ہوسکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ باقاعدگی سے کافی پینے والے افراد میں یہ اثرات رونما نہیں ہوتے کیونکہ ان کا جسم اس کے خلاف مزاحمت پیدا کرلیتا ہے اور وہ کیفین کو برداشت کرنے لگتا ہے تاہم کبھی کبھی کافی پینے والوں کے بلڈ پریشر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

پیر, 05 ستمبر 2016 13:10

شہریار خان کی طبیت ناساز

ایمز ٹی وی (کھیل) شہریارخان کی اننگز ڈیکلیئر ہونے کا وقت قریب آگیا، عارضہ قلب میں مبتلا چیئرمین پی سی بی ان دنوں لندن میں علاج کرا رہے ہیں، اگر ڈاکٹرز نے ضروری سمجھا تو بدھ کو ان کی سرجری بھی ہو سکتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق شہریارخان کی صحت تیزی سے خراب ہو رہی ہے، پی سی بی کے 82 سالہ سربراہ دل کے امراض کا شکار اور ان دنوں لندن میں علاج کرا رہے ہیں، ذرائع نے بتایا کہ ڈاکٹرز نے اگر ضروری سمجھا تو بدھ کوان کی سرجری بھی ہوسکتی ہے، انھیں ذہنی تناؤ سے دوررہنے کا مشورہ دیا گیا مگر قومی ٹیم کی مسلسل شکستیں دباؤ بڑھا رہی ہیں، اس صورت میں انھیں طبی بنیادوں پر کرکٹ بورڈ کی پوسٹ چھوڑنا پڑے گی، ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیف نجم سیٹھی ان کی جگہ عہدہ سنبھالیں گے، شہریارخان نے پی سی بی میں اپنی دوسری اننگز اگست 2014میں شروع کی تھی۔ گذشتہ عرصے یہ اطلاعات زیرگردش رہیںکہ وہ مستعفی ہو جائیں گے مگر ایسا نہیں ہوا، لندن میں بیٹسمین عمر اکمل کے بعد انھوں نے بھی وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی تو پھر غیرسرکاری طور پر اطلاعات سامنے آئیں کہ انھیں مزید ایک سال تک کام جاری رکھنے کی ہدایت ملی ہے،ذرائع نے بتایا کہ درحقیقت انھیں مزید ایک ماہ تک چیئرمین بنے رہنے کا کہا گیا تھا، وہ بورڈ سے باوقار انداز میں رخصت چاہتے تھے جس پر سرپرست اعلیٰ بھی راضی ہیں، بعد ازاں انھوں نے مزید کچھ عرصے عہدے پر براجمان رہنے کا ارادہ کر لیا مگر طبی مسائل آڑے آگئے، گوکہ شہریارخان اب بھی دل سے عہدہ چھوڑنے کیلیے تیار نہیں ہیں مگر دل کی ہی وجہ سے انھیں بادل نخواستہ ذمہ داریوں سے الگ ہونا پڑ سکتا ہے۔


ایمز ٹی وی (صحت) ایک نئی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ شام 7 بجے کے بعد کھانا کھانے سے ہائی بلڈ پریشر اور فالج کے باعث موت کا خطرہ بھی بہت بڑھ جاتا ہے۔
یہ انکشاف دوکوز ایلول یونیورسٹی ترکی کے ماہرین نے اپنی تحقیق میں کیا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر رات کو دیر سے کھانا کھایا جائے تو اس کے نتیجے میں ہمارا جسم آرام کی کیفیت میں آنے کے بجائے رات بھر چوکنا رہتا ہے۔ جب ہمارا جسم سونے کے لیے تیار ہوتا ہے تو اس کا بلڈ پریشر بھی دیگر اوقات کی نسبت 10 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کھانا کھانے کے بعد ہمارے جسم میں تناؤ پیدا کرنے والے ہارمونوں (اسٹریس ہارمونز) کا اخراج ہوتا ہے جو ہمارے بلڈ پریشر کو معمول پر رکھتے ہیں۔ کھانے کے 2 گھنٹے بعد تک یہی کیفیت برقرار رہتی ہے جس کے دوران یا تو ہمیں نیند ہی نہیں آتی اور اگر آتی ہے تو وہ بھرپور نہیں ہوتی۔
ڈاکٹرز نے اس تحقیق کے دوران 53 سال یا اس سے زیادہ عمر کے ایسے 721 افراد کا مطالعہ کیا جنہیں ہائی بلڈ پریشر کی شکایت تھی۔ ان کے سونے جاگنے اور کھانے پینے کے اوقات کا تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو رات کا کھانا کھاکر 2 گھنٹے سے پہلے ہی سونے چلے جاتے ہیں ان میں ساری رات بلڈ پریشر بڑھے رہنے کا تقریباً 3 گنا زیادہ ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہےکہ ساری رات ہائی بلڈ پریشر کی کیفیت میں رہنا بہت خطرے کی بات ہے کیونکہ اس سے فالج اور دل کے امراض کے باعث موت کا خدشہ بھی 3 گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ اس خطرے سے بچنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ رات کا کھانا زیادہ سے زیادہ شام 7 بجے سے تک کھا لیا جائے۔

ایمز ٹی وی (صحت)امریکی سائنسدان نے ایک نئی قسم کا متوازن اور صحت بخش ’’تیار ناشتہ‘‘ ایجاد کیا ہے جو کسی پلیٹ یا ڈش میں نہیں بلکہ بوتل میں بند ہوتا ہے اور جسے آسانی سے پیا جاسکتا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق غذائی ٹیکنالوجی کے ماہر امریکی سائنسدان ڈاکٹر راب رائن ہارٹ نے اپنی اس اختراع کو رائن ہارٹ نے ’’سوئے لینٹ‘‘ (Soylent) کا نام دیا ہے۔ ایک چھوٹی سی بوتل میں بند اس ناشتے میں وہ تمام غذائی اجزاء شامل ہیں جو صبح سے لے کر دوپہر تک ہمارے جسم کو درکار ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر راب رائن ہارٹ اس قبل یہی ناشتہ پاؤڈر کی شکل میں پیش کرچکے ہیں جب کہ حالیہ چند مہینوں میں رائن ہارٹ نے سوئے لینٹ میں کافی کا اضافہ کرکے اسے ’’کافیسٹ‘‘ (Coffiest) کے نام سے بھی متعارف کروایا ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی ’’سوئے لینٹ بار‘‘ ہے جو کسی چاکلیٹ کی طرح دکھائی دیتی ہے لیکن وہ اپنے آپ میں بھرپور ناشتہ ہے۔

سوئے لینٹ کی تمام مصنوعات میں فی خوراک 250 سے لے کر 500 کلو کیلوریز تک ہوتی ہیں جو تیز رفتار زندگی میں توانائی بہم پہنچانے کا آسان ذریعہ ہیں۔ اس میں غذائی اجزاء کو اس انداز سے متوازن کیا گیا ہے کہ پروٹین، چکنائی اور کاربوہائیڈریٹس، تینوں کی موزوں ترین مقداریں اس میں شامل ہیں۔ اس کی پیکنگ بھی ماحول دوست ہے جو بہ آسانی گل سڑ کر ختم ہوجاتی ہے اور ماحول پر کسی بھی طرح کے مضر اثرات بھی مرتب نہیں کرتی۔

ڈاکٹر راب نے ایک سوئے لینٹ بار کی قیمت کم از کم 1.75 یعنی 180 روپے جب کہ کافیسٹ کی ایک بوتل کےلئے 3.09 ڈالر یعنی 315 روپے رکھی ہے اور اسے پیکیج ہی کی صورت میں سوئے لینٹ کی ویب سائٹ سے ہی خریدا جاسکتا ہے۔

ایمز ٹی وی (صحت)انگلیوں کے جوڑ چٹخانا اکثر افراد کی عادت ہوتی ہے مگر ایسا کرنے پر اندر ہوتا کیا ہے، کیا اس بارے میں آپ کو علم ہے یا یوں کہہ لیں کہ آخر انگلیاں چٹخانے پر آواز کیوں آتی ہے تو اس کا جواب کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا ہے۔

البرٹا یونیورسٹی کی تحقیق میں انگلیوں کو چٹخانے پر جوڑوں کے اندر اثرات کا جائزہ ایم آر آئی اسکین کے ذریعے لیا گیا۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ چٹخانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آواز درحقیقت سینوویال فلوئیڈ (رطوبت زلالی) میں گیس بھرنے کے نتیجے میں ابھرتی ہے۔

سینوویال فلوئیڈ ایسا پتلی رطوبت ہوتا ہے جو انسانی جسم کے بیشتر جوڑوں کے درمیان موجود خلاءکو بھرتا ہے۔ تحقیق کے مطابق جب انگلیوں کو چٹخایا جاتا ہے تو یہ کچھ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے خلاءپیدا کیا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے جوڑ کی سطح اچاک الگ ہوتی ہے جس کے نتیجے میں آواز پیدا ہوتی ہے۔

اس حوالے سے الٹرا ساﺅنڈز کی مدد سے بھی جائزہ لیا گیا کیونکہ یہ ٹیکنالوجی ایم آر آئی کے مقابلے میں پچاس سے سو گنا زیادہ تیزی سے چیزوں کو کیچ کرتی ہے۔ نتائج سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ ایسا کرنے سے دباﺅ میں ہونے والی تبدیلی کے نتیجے میں رطوبت میں پیدا ہونے والے بلبلے چٹخنے کی آواز پیا کرتے ہیں۔

اور ہاں انگلیاں چٹخانے کی عادت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جوڑوں کے امراض یا دیگر طبی مسائل کا باعث بنتی ہے۔ تاہم محققین کا کہنا ہے کہ اس ھوالے سے قابل اعتبار شواہد موجود نہیں کہ انگلیاں چٹخانا کسی قسم کے مسئلے کا باعث بنتا ہے۔

دوسری جانب کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ایک نئی تحقیق میں بھی بتایا گیا ہے کہ اس عادت کے کسی قسم کے مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے مگر محققین کے بقول اس کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔

منگل, 23 اگست 2016 15:26

خون کی کمی کی 6 علامات

ایمز ٹی وی (صحت)جسم میں خون کی کمی یا انیمیا درحقیقت جسم یں خون کے سرخ خلیات کی کمی کو کہا جاتا ہے جو آکسیجن کی فراہمی کا کام کرتے ہیں۔ یہ مرض کچھ افراد کو پیدائشی طور پر ہوتا ہے جسے تھلیسیمیا بھی کہا جاتا ہے مگر بیشتر افراد ایسے ہوتے ہیں جو آئرن یا وٹامن بی 12 کی کمی کے باعث اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اگر کسی شخص میں خون کی کمی ہو تو اسے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے تاکہ وہ اس کی قسم کا تعین کرکے علاج کرسکے۔ تاہم خون کی کمی یا اینمیا کے مرض کی چند علامات درج ذیل ہیں۔

سانس لینے میں مشکل یا سر چکرانا جسم میں آئرن یا وٹامن بی 12 کی کمی کے نتیجے میں جسم ایک مخصوص پروٹین ہیموگلوبن کی مقدار بنانے میں ناکام رہتا ہے جو کہ خون کے سرخ خلیات کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ہیموگلوبن میں آئرن کی مقدار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اسی وجہ سے خون کا رنگ سرخ ہوتا ہے، جو آکسیجن کو کو دوران خون کے ذریعے جسم میں پہنچاتے ہیں۔ جب جسم کو مناسب مقدار میں آکسیجن نہیں ملتی تو اس کے نتیجے میں سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے جبکہ اکثر سر چکرانے لگتا ہے یا ہلکا پن محسوس ہوتا ہے۔

مرجانے کی حد تک تھکاوٹ شکاگو یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق انیمیا کی سب سے عام اور نمایاں علامت تھکاوٹ کا احساس ہے۔ تحقیق کے مطابق اس تھکاوٹ کی علامت کا اظہار لوگوں میں مختلف انداز میں ہوتا ہے، کچھ کو زیادہ تھکاوٹ ہوتی ہے اور اس کی وجہ بھی وہی عمل ہے جو سانس کی تنگی اور سر چکرانے کا باعث بنتا ہے یعنی آئرن یا وٹامن بی 12 کی کمی۔

جلد کی رنگت زرد ہوجانا اگر جسم میں خون کے صحت مند سرخ خلیات نہ ہو تو آپ توقع نہیں کرسکتے کہ جسم کا سب سے بڑا عضو یعنی جلد صحت مند نظر آئے۔ آئرن یا وٹامن بی 12 کے بغیر جلد تک مناسب مقدار میں خون نہیں پہنچ پاتا جس کے نتیجے میں وہ زرد نظر آنے لگتی ہے۔

سینے میں درد جب جسم میں صحت مند سرخ خلیات کی کمی ہو تو دل کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے تاکہ جسم کو خون کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے، اس کے نتیجے میں دل کی دھڑکن معمول سے زیادہ تیز ہوجاتی ہے اور سینے میں درد ہونے لگتا ہے، یہ ایسا مسئلہ نہیں جسے نظرانداز کیا جائے خاص طور پر اگر آپ کو دل کے دیگر مسائل کا سامنا ہو۔ ایک تحقیق کے مطابق خون کی کمی نے نتیجے میں دل کے امراض کے باعث موت کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

صرف سبزیوں کا استعمال ایک تحقیق کے مطابق اگرچہ سبزیوں سے جسم کو آئرن کی مناسب مقدار مل جاتی ہے مگر یہ غذا وٹامن بی 12 کی فراہمی میں ناکام رہی ہے، جس کے نتیجے میں جسم میں اس وٹامن کی کمی ہونے لگتی ہے جو کہ انیمیا کے مرض کا باعث بن جاتی ہے۔

عجیب چیزوں کی لت خون کی کمی کی سب سے غیرمعمولی علامت آئس کیوب، کھانے کے سوڈے، پینسل یا خشک پینٹ کو کھانے کی شکل میں نظر آتی ہے۔ طبی ماہرین ابھی تک یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ مریضوں میں یہ عجیب و غریب چیزیں چبانے کی خواہش کیوں پیدا ہوتی ہے مگر ان کے بقول یہ انیمیا کی بہت عام عادت ہے۔