ایمزٹی وی(بزنس)وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک معاشی تفاوت ختم کرنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو عالمی پالیسی سازی کا حصہ بنائیں، عالمی مالیاتی اور معاشی فیصلوں میں عدم شمولیت، قرضوں کا بوجھ، طریق پیداوار میں جدید ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی اور محدود پیداواری اشیا پر انحصار وہ بنیادی مسائل ہیں جو ترقی پذیر ممالک کے خوشحالی کے سفر میں مستقل رکاوٹ ہیں، اس سفر میں عالمی برادری ترقی پذیر ممالک کو رہنمائی فراہم کرے۔ یونائیٹڈ نیشنز کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ (یواین سی ٹی ڈی) کے نیروبی میں اجلاس کے دوران ’گروپ آف 77 پلس چائنا‘ کے اجلاس کے دوران ایشیا پیسیفک کا موقف پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی مثلاً تھری ڈی پرنٹنگ، روبوٹس ومصنوعی ذہانت کے تجارت، عالمی ویلیو چین اور روزگار پرغیریقینی اثرات مرتب ہوں گے اس سے خصوصاً ترقی پذیر ممالک کے عوام متاثر ہوں گے جس کے لیے پیش بندی کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ تجارتی اور اقتصادی ترقی کا یہ ادارہ پالیسی اور تکنیکی رہنمائی کے لیے ترقی پذیر ممالک کو ساتھ لے کر چلے۔ انھوں نے تجویز پیش کی کہ ادارے کے اندر نئے اور مخصوص ورکنگ گروپ قائم کیے جائیں جو ترقی پذیر ممالک کو پالیسی اور تکنیکی رہنمائی فراہم کریں۔ انھوں نے ’گروپ آف 77 اور چائنا‘ کے ممبران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس سے معنی خیز نتائج کے حصول کے لیے مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک اس سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکیں، ادارے میں ترقی پذیر ممالک کو پالیسی معاملات پر تکنیکی رائے کے لیے تحقیق اور تجزیے کی بنیاد پر معلومات فراہم کی جائیں جس کے لیے ادارے میں ٹرسٹ فنڈ قائم کیا جائے۔انھوں نے کہا کہ کانفرنس کے شرکا پالیسی سازی میں اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں وضع کریں۔ وفاقی وزیر نے ’ گروپ آف 77اور چائنا‘ کے ممبران پر تجارت اور اقتصادی ترقی سے متعلق ادارے کے اہداف حاصل کرنے کے لیے کاوشیں تیز کرنے پر زور دیا۔