ایمزٹی وی(بزنس)کنسٹرکشن انڈسٹری پاکستانی معیشت کو جمپ اسٹارٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت پاکستان ہاؤسنگ پروگرام متعارف کرائے۔ یہ بات ممتازماہر اقتصادیات قیصربنگالی نے ہفتہ کو کراچی ایکسپوسینٹر میں آباد ایکسپو 2016 میں پاکستانی کنسٹرکشن انڈسٹری کو درپیش چیلنجز کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اب کنسٹرکشن انڈسٹری کو پرائمری انجن آف گروتھ تصور نہیں کیا گیا، مکان ہر ایک کی بنیادی ضرورت ہے لیکن پاکستان میں ایسا معاشرہ بن گیا ہے کہ رہنے کے علاوہ موت کے بعد بھی زمین دستیاب نہیں، ریاست کو کم ازکم ہاؤسنگ کو کاروبارکا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔
انھوں نے کہاکہ ہائی رائز عمارتیں جب زیادہ بنتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ڈیمانڈ موجود ہے جسے بلڈرز پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ قیصربنگالی نے آباد پر زوردیا کہ وہ معیاری تعمیرات اور عمارتوں کے لیے سرٹیفکیشن پروگرام ترتیب دے جو کسٹمرز کیلیے کوالٹی کی ضمانت گردانی جائے جبکہ عوام کا سرمایہ ڈوبنے سے بچانے کیلیے آدھا پروجیکٹ چھوڑ کر بھاگنے والوں کے احتساب کا نظام وضع کرے، اسی طرح کنسٹرکشن ورکرز کیلیے تربیتی پروگرام بھی متعارف کرایا جائے تاکہ منظم شعبے کے بلڈرز او رڈیولپرز انہی سرٹیفائیڈ ورکرز کو استعمال میں لائیں۔
عارف حبیب گروپ کے چیئرمین عارف حبیب نے کہا کہ آباد ایکسپو نے کنسٹرکشن انڈسٹری کو متحرک کیا ہے، یہ حقیقت ہے کہ کنسٹرکشن انڈسٹری کا معیشت میں اہم کردار ہے جو روزگار کی فراہمی اور 72 سے زائد صنعتی شعبوں کے پہیے کو چلانے میں معاونت کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم تاحال اس اہم شعبے اور دستیاب مواقع سے فائدہ نہیں اٹھاسکے، پاکستان میں 1 کروڑگھروں کی قلت ہے، ہر سال 7 لاکھ گھروں کی ڈیمانڈ بڑھتی ہے جن میں بمشکل4 لاکھ نئے گھر بنتے ہیں، اس طرح ہرسال 3 لاکھ گھروں کی قلت کا سامنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ امن وامان کی صورتحال بہترہونے سے معاشی سرگرمیوں میں بھی بہتری رونما ہوئی ہے، حکومت کنسٹرکشن انڈسٹری کے ساتھ تعاون اور سہولتیں دے تو یہ شعبہ حکومت کے سوشیواکنامک ایجنڈے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مارگیج فنانسنگ کی سہولت میسر نہیں ہے، اب شرح سود کم ہو گئی ہے لہٰذا اسٹیٹ بینک اور دیگر بینکوں کو مارگیج فنانسنگ کی حوصلہ افزائی اورمتعلقہ قوانین میں ترامیم کرنے کی ضرورت ہے، اس سے عام آدمی کو حاصل کردہ قرضوں کے عوض 15 تا20 سالہ مدت میں اپنے گھرکی ملکیت مل سکتی ہے۔
آباد کے پیٹرن انچیف محسن شیخانی نے کہا کہ تعمیراتی شعبے کو پالیسی ودیگر متعدد مسائل کا سامنا ہے، آباد کچی آبادیوں کو ری ڈیولپ کرنا چاہتی ہے تاکہ ان آبادیوں میں رہنے والے خاندان منظم ہونے کے ساتھ بہترمعیارزندگی اختیار کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ رینجرز کی کوششوں کے نتیجے میں 2سال سے امن وامان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے تاہم ضرورت ہے کہ جرائم پر قابو پانے کیلیے کچی آبادیوں کو مثالی آبادی میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے، کراچی کا 52 فیصد حصہ کچی آبادی پر مشتمل ہے جو 17 سال قبل صرف17 فیصد تھا۔
آباد کے چیئرمین حنیف گوہر نے کہا کہ نمائش کا مقصد بیرون ممالک سے سرمایہ پاکستان لانا ہے، ایکسپو 2016 سے پاکستان کی عزت اور توقیر میں اضافہ ہوگا، تعمیرات سے وابستہ دیگر صنعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کیلیے آباد سرگرم عمل ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ غیرملکی تاجروں کو سہولتیں دے، اس سے ملکی معیشت کو فروغ ملے گا، آباد کا مقصد ملک میں تعمیراتی انقلاب لانا ہے جس کیلیے تمام ممبران ایک پلیٹ فارم سے بھرپور کوششیں کررہے ہیں، حکومت اگر ملکی معیشت کافروغ چاہتی ہے تو آباد کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کرے، ملک میں سستے گھروں کی تعمیر کا خلا بڑھتا جارہا ہے جسے پر کرنے کیلیے آباد نے ہر فورم پر آواز بلند کی ہے۔