ایمز ٹی وی (تجارت) چین کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے کے باوجود بیجنگ کے ساتھ تجارت میں خسارہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، 2 سال میں پاکستان کا تجارت میں خسارہ 3.9ارب سے 9.1ارب ڈالر تک بڑھ گیا جبکہ دونوں ملکوں کے سرکاری تجارتی اعدادوشمار میں 5.5 ارب ڈالر کا فرق بھی بڑے پیمانے پر انڈرانوائسنگ اور غلط بیانی کی نشاندہی کر رہا ہے جس سے پاکستان کو ریونیو خسارے اور ٹیکس کی چوری کا سامنا ہے۔ پاکستان بزنس کونسل کی جانب سے پاک چین آزاد تجارت معاہدے پر نظرثانی کے دوسرے رائونڈ کے لیے جاری کیے جانے والے حالیہ جائزے کے مطابق چین کی پیداواری اور مسابقت کی بھرپور صلاحیت کی وجہ سے پاک چین تجارت میں چین کا پلڑہ ہی بھاری رہے گا، دوسری جانب آزاد تجارت کے معاہدے کے باوجود پاکستان کو چین کے دیگر تجارتی حلیف ملکوں کے مقابلے میں درآمدی ڈیوٹی کی بلند شرح کا سامنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سال 2013میں پاکستان کی چین کو ایکسپورٹ 2.6ارب ڈالر اور چین سے امپورٹ 6.6ارب ڈالر تھی جبکہ سال 2015میں پاکستان کی برآمدات کم ہوکر 1.9ارب ڈالر اور چین سے درآمد11ارب ڈالر تک بڑھ چکی ہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ 3.9ارب ڈالر سے بڑھ کر 9.1 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے، سال 2015 میں پاکستان کی مجموعی برآمدات کا 8.8فیصد چین کو برآمد کیا گیا جبکہ پاکستان کی مجموعی درآمدات میں چین کا حصہ 25فیصد تک پہنچ گیا جس کے بعد چین پاکستان کے بڑے تجارتی پارٹنرز ملکوں میں شامل ہوگیا ہے۔
پاکستان بزنس کونسل نے پاک چین آزاد تجارت کے معاہدے کے اگلے راؤنڈ سے متعلق اپنی سفارشات میں حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ پاکستان سے چین کو برآمد کی جانے والی 10 سرفہرست مصنوعات کے لیے ٹیرف کی رعایت حاصل کی جائے یا استثنیٰ کی حامل اشیا کی فہرست میں شامل کرایا جائے، پاکستان کی صنعتوں کو متاثر کرنے والی چینی مصنوعات کی درآمدات کی احتیاط کے ساتھ نگرانی کی جائے اور انھیں صنعتوں کو تحفظ دینے کیلیے پروٹیکٹڈ لسٹ میں شامل کیا جائے۔