ایمز ٹی وی (تجارت) قومی زرعی ترقیاتی بینک کی جانب سے پنجاب کو نوازنے کا انکشاف ہوا ہے، ایک سال میں زرعی قرضوں کا 81 فیصد پنجاب کے کسانوں میں تقسیم کیا گیا، باقی ماندہ پورے ملک کے کسانوں میں صرف 19 فیصد زرعی قرضہ تقسیم کیا جاسکا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا جس میں زرعی قرضوں پر شرح سود مناسب حد تک کم کرنے کی سفارش کی گئی۔ زرعی ترقیاتی بینک کے حکام نے قائمہ کمیٹی کو بتایا 2015 میں پنجاب میں 81 فیصد، سندھ 13.4 فیصد، خیبر پختونخوا 4.2 فیصد، بلوچستان 0.3 فیصد، آزاد جموں اور کشمیر 0.4 فیصد اور گلگت بلتستان کے کسانوں میں 0.4 فیصد زرعی قرضے تقسیم کئے گئے۔
زرعی ترقیاتی بینک کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ 2015 میں دیے جانے والے قرضوں کی ریکوری 92.2 فیصد رہی، پنجاب میں تقسیم کئے گئے قرضوں کی ریکوری 93.6 فیصد، سندھ 86.3 فیصد، خیبر پختونخوا 91.7 فیصد، بلوچستان 74 فیصد، آزاد جموں اور کشمیر 99.6 فیصد اور گلگت بلتستان میں تقسیم کئے گئے قرضوں کی ریکوری 90.1 فیصد رہی۔ کمیٹی رکن رانا محمد حیات کا کہنا تھا کہ 3 سال میں زرعی ترقی پر توجہ نہیں دی گئی، نون لیگ کی حکومت آئی تو ٹریکٹر پر شرح سود 8 فیصد تھی، آج ٹریکٹر کے قرضے پر 17 فیصد سود وصول کیا جا رہا ہے، زرعی قرضوں پر شرح سود کم کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاجروں اور صنعتکاروں کو 6 فیصد کی شرح پر سود دیا جا رہا ہے جبکہ زرعی قرضوں پر شرح سود 14 فیصد ہے۔
کمیٹی رکن میاں عبد المنان کا کہنا تھا کہ بھارت سمیت دنیا بھر میں زرعی قرضوں پر شرح سود 6 فیصد سے زیادہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت زرعی قرضوں پر شرح سود میں کمی لائے، سبسڈی دینا حکومت کا کام ہے۔اس موقع پر زرعی ترقیاتی بینک کے صدر کا کہنا تھا کہ ہم زرعی قرضوں پر 12.5 فیصد سود لے رہے ہیں اور دیگر کمرشل بینک کسانوں سے 15 فیصد سود وصول کر رہے ہیں، زرعی قرضوں پر شرح سود کم کرنے سے متعلق فیصلہ حکومت کو کرنا ہے۔ کمیٹی نے زرعی قرضوں پر شرح سود مناسب حد تک کم کرنے کی سفارش کی جبکہ کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکاؤنٹنٹس ترمیمی بل 2015 کی منظوری مؤخر کردی ہے۔ وفاقی سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود خان نے کہا کہ زرعی قرضوں پر شرح سود میں کمی سے متعلق بریف تیار کرکے نہیں آیا، کمیٹی اپنی سفارشات بھجوا دے، حکومت اس میں کمی لانے کی کوشش کرے گی۔