ایمزٹی وی(تجارت)فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے دنیاکی تاریخ میں پہلی بار انکم ٹیکس و سیلز ٹیکس رجسٹریشن کا آڈٹ کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے جس کیلیے باقاعدہ نظام متعارف کروایا جائے گا اور رُولز بھی متعارف کروائے جائیں گے۔
اس ضمن میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) ذرائع نے گزشتہ روزمیڈیا کو بتایا کہ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اپنی زیر نگرانی اعلی سطح کی کمیٹی قائم کردی ہے۔ کمیٹی کے ارکان میں ممبر ان لینڈ ریونیو پالیسی ڈاکٹر اقبال، ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشن خواجہ تنویر کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل براڈننگ آف ٹیکس بیسڈ اور ڈائریکٹر جنرل ودہولڈنگ ٹیکس شامل ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) تاریخی کام کرنے جارہا ہے، اس سے قبل دنیا میں کبھی ٹیکس پیئرز رجسٹریشن کا آڈٹ نہیں ہوا ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو اس منصوبے میں کامیاب ہوگیا تو یہ دنیا کیلیے رول ماڈل ثابت ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین ایف بی آر کی جانب سے قائم کی جانے والی یہ کمیٹی ٹیکس پیئرز رجسٹریشن آڈٹ کا نظام اور رُولز کا مسودہ تیار کرنے کے حوالے سے اپنی رپورٹ تیار کریگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نظام کی تیاری کے لیے قائم کی جانیوالی کمیٹی کی نگرانی چیئرمین ایف بی آر طارق پاشا خود کریں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس نظام کے متعارف کروانے سے جعلی انوائسز اور جعلی ریفنڈز کے اجرا کے ساتھ ساتھ دیگر نوعیت کی ٹیکس چوری روکنے میں مدد ملے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک بھر میں نیشنل ٹیکس نمبر (این ٹی این) رکھنے والے انکم ٹیکس رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی مجموعی تعداد 32 لاکھ ہے جن میں سے انکم ٹیکس گوشوارے سترہ لاکھ کے لگ بھگ جمع کروارہے ہیں۔ اسی طرح سیلز ٹیکس رجسٹریشن رکھنے والوں کی مجموعی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ ہے مگر سیلز ٹیکس گوشوارے و اسٹیٹمنٹس جمع کروانے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیکس دہندگان کی اکثریت این ٹی این اور سیلز ٹیکس رجسٹریشن نمبر لینے کے بعد کاروباری یونٹ غیر فعال کردیتے ہیں یا کاروبار ایک جگہ سے کسی دوسری جگہ منتقل کرلیتے ہیں اور پھر کچھ عرصے بعد ان نمبرز سے جعلی انوائسز جاری کرتے ہیں جنہیں غیر قانونی و جعلی ریفنڈز کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انکم ٹیکس و سیلز ٹیکس رجسٹریشن کے آڈٹ سے یہ معلوم ہوسکے گا کہ جنہوں نے انکم ٹیکس و سیلز ٹیکس رجسٹریشن کروارکھی ہے ان میں سے کتنے لوگ ہیں جو کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں اور کتنے حقیقی معنوں میں کاروبار بند کرچکے ہیں اور کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ٹیکس رجسٹریشن کے لیے جو اڈریس دیا تھا وہ کاروباری یونٹ اس اڈریس کے بجائے کسی دوسری جگہ پر چل رہا ہے اور یہ بھی معلوم ہوسکے گا کہ کونسے لوگ سیلز ٹیکس سے چھوٹ لے رہے ہیں اور ان کی جانب سے لی جانے والی یہ چھوٹ جائز ہے۔