جمعرات, 25 اپریل 2024

Displaying items by tag: Health

ایمز ٹی وی (صحت)پیٹ کا پھول جانا یا گیس ہوجانا بہت عام ہے جو کہ کافی تکلیف کا باعث بھی ہوتا ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں جسمانی طو پر بھی سستی محسوس ہوتی ہے مگر اس سے بچنا بہت آسان ہے۔ بس آپ کو چند عام چیزوں کو ہی اپنانا ہوگا۔

کیسٹر آئل کیسٹر آئل کو گرم کرکے پیٹ پر اس کی مالش کریں، اس سے جسم کو اضافی چربی گھلانے اور پیٹ کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور اس طرح پیٹ پھولنے اور گیس پیدا ہونے کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔

سبز چائے چائے خاص طور پر سبز چائے نظام ہاضمہ کو صاف کرنے، میٹابولزم کو بہتر بنانے اور پیٹ پھولنے کو کم کرتی ہے، جبکہ سبز چائے ایک ایسا مشروب ہے جس کا زیادہ استعمال کسی قسم کے مضر اثرات کا باعث بھی نہیں بنتا۔

بہتر نیند اگر تو آپ کم سونے کے عادی ہیں تو پیٹ پھولنا اور گیس پیدا ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیئے، تاہم 7 سے 9 گھنٹے کی نیند سے آنتوں کا نظام بہتر اور قبض کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے، جس سے پیٹ پھولنے اور گیس کی شکایت بھی کم ہوجاتی ہے۔

چیونگم سے دوری اگر تو آپ مسلسل چیونگم چبانے کے عادی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ٹافیاں چوسنے اور کولڈ ڈرنکس کو پسند کرتے ہیں تو پیٹ میں ہوا بھر جانا لازمی ہوجاتا ہے۔ یہ ہوا معدے میں پھنس جاتی ہے جس کے نتیجے میں پیٹ پھولتا ہے یا گیس کی شکایت ہوجاتی ہے، تو ان عادات سے دوری اس تکلیف سے بچاﺅ کے لیے ضروری ہے۔

کم غذا کا استعمال جب آپ زیادہ کھانا کھاتے ہیں تو اسے ہضم ہونے میں بھی وقت لگتا ہے، یہ ہضم نہ ہونے والا کھانا آنتوں میں گیس کا باعث بنتا ہے اور یہی مسئلہ آگے بڑھ کر آنتوں اور معدے کو پھلا دیتا ہے، لہذا کم مقدار میں کھانا بہترین حکمت عملی ہے۔

مخصوص غذاﺅں کا کم استعمال سفید ڈبل روٹی، سفید چاول، بسکٹ، کیک، ٹافیاں اور گوبھی وغیرہ پیٹ میں گیس پیدا کرتے ییں، لہذا ان کا استعمال کبھی کبھار کریں تاکہ اس تکلیف سے بچا جاسکے۔

ایمز ٹی وی(صحت)نہ صرف اولمپک ایتھلیٹ اور کھلاڑیوں کے دل بڑے ہوتے ہیں بلکہ اگر 3 سے 4 گھنٹے فی ہفتہ ورزش کی جائے تو اس سے بھی دل بڑا ہوتا ہے لیکن اسے دل بڑھنے کی عام بیماری نہ سمجھا جائے کیونکہ اس کا معنی دل کا توانا ہونا ہے۔

دوڑنے والے کھلاڑیوں کی دل کی باریک رگیں تک کھلی ہوئی ہوتی ہیں اور ان کا دل معمول سے کچھ بڑا ہوتا ہے۔ لیکن ماہرین نے کہا ہے کہ کھلاڑی اور ایتھلیٹ کے علاوہ عام افراد بھی اگر ہفتے میں 3 سے 5 گھنٹے ورزش کریں تو ان کا دل کی افزائش میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔

اس بات کی تصدیق کے لیے امپیریل کالج لندن کے سائنسداںوں ایک ہزار سے زائد ایسے افراد کا اسکین کیا جن کا دل صحت مند تھا۔ سروے کے بعد معلوم ہوا کہ جن افراد نے جتنا زیادہ وقت ورزش کو دیا ان کا دل اسی لحاظ سے بڑھا۔ ان میں سے جنہوں نے ہفتے میں 5 گھنٹے تک ورزش کی ان کا دل قدرے بڑا تھا۔ اس سروے میں شامل ہزار سے زائد افراد میں سے 50 فیصد کا دل بڑا تھا جنہوں نے ہفتے میں 5 گھنٹے ورزش کی تھی۔

ان میں سے جن افراد نے 3 گھنٹے فی ہفتہ جاگنگ اور دوسری ورزشیں کی تھیں ان کے دل میں بایاں وینٹریکل 2.4 گنا بڑا تھا جب کہ ہفتے میں 5 گھنٹے تک ورزش کرنے والوں میں یہ شرح 4.4 گنا نوٹ کی گئی۔ اس کے علاوہ ورزش کا اثر دائیں وینٹریکل پر بھی دیکھا گیا۔

ماہرین کے مطابق ورزش کرنے والوں کے دل اور ساخت میں تبدیلی کو بسا اوقات دل بڑھنے کی ایک عام بیماری سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کا ازالہ اس مطالعے نے کیا ہے کیونکہ ان کا دل ورزش کی وجہ سے بڑا ہے

ایمز ٹی وی(صحت)ماہرین طب نے کہاہے کہ ذیابیطس کے70 فیصدسے زائڈمریض ایسے ہیں جن کے پاؤں زخم اور انفیکشن کی وجہ سے خراب ہوجاتے ہیں جس کے باعث زخمی پاؤں کو کاٹنا پڑتا ہے تاہم اس سرجری کے 5 سال کے اندرموت واقع ہوجاتی ہے۔

آئندہ 24 سالوں میں پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ 40لاکھ سے تجاوزکرجائے گی جبکہ اتنے ہی لوگوں کے اس مرض سے متاثرکے امکانات بڑھ جائیں گے، اس موقع پرعالمی ذیابطیس فیڈریشن کے نائب صدر ڈاکٹر اختر حسین، کانگریس کے کو چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبدالباسط اور ماہر امراض ذیابیطس پروفیسر زمان شیخ، ڈاکٹر زاہد میاں، ڈاکٹر ذوالفقار علی جی عباس مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین امراض ذیابیطس اورشعبہ طب سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز موجود تھے، کانگریس میں پیروں کو زخموں سے بچانے والے مخصوص جوتے بنانے کا عملی مظاہرہ کیا گیا، یہ جوتے کمپیوٹرائزڈ مشینوں اور تھری ڈی پرنٹرزکی مدد سے ہرمریض کے پیروں کی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں اور پاکستان میں پہلی بار انھیں تیار کیا گیا ہے، یہ مخصوص جوتے بقائی ذیابطیس انسٹی ٹیوٹ میں ہی تیار کیے جا رہے ہیں۔

ماہر امراض ذیابیطس ڈاکٹر زاہد میاں نے کہا کہ شوگر کے مریضوں کو اپنے پیروں کی حد سے زیادہ حفاظت کرنی چاہیے اورکسی بھی معمولی تکلیف ، زخم یاسن ہونے کے صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے، عالمی ذیابیطس فیڈریشن کے صدر پروفیسر عبدالصمد شیرا کا کہنا تھاکہ پاکستان میں اس وقت2بیماریاں وبائی صورت اختیار کر چکی ہیں جن میں موٹاپا اور ذیابطیس شامل ہیں۔

ڈاکٹر زاہد میاں نے کہا کہ طرز ندگی سے ہونے والی ذیابطیس ایک خاموش مرض ہے جس کا ابتدائی 6برس میں پتہ ہی نہیں چلتا اور مریض کو اس وقت اپنی بیماری کاعلم ہوتاہے جب وہ ناقابل علاج ہوجاتی ہے،باربارپیشاب آنا، پیاس لگنا، حلق خشک ہوجانا اور اسی طرح کی دوسری علامات کا طرز زندگی سے ہونے والی ذیابطیس سے قطعاََ کوئی تعلق نہیں ہے ،پاکستان میں عام طور پر پائی جانے والی ذیابطیس ٹائپ ٹو ہے جو ایک خاموش قاتل اور خفیہ بیماری ہے جو موٹاپے ، بے تحاشہ کھانے اور کسی قسم کی ورزش نہ کرنے اور کام نہ کرنے کے نتیجے میںلاحق ہوتی ہے، اس سے بچاؤ کا واحد حل کم کھانا اور زیادہ چلنا ہے۔

عالمی ذیابطیس فیڈریشن کے نائب صدر اور بنگلا دیشی ماہر امراض ذیابطیس ڈاکٹر اختر حسین کا کہناتھا کہ دنیا کے65فیصد ذیابطیس کے مریض برصغیر پاک و ہندمیں رہتے ہیں جہاںیہ بیماری وبائی صورت اختیارکرچکی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ یورپی ممالک نے اپنے وسائل اور اپنے علم و ہنر کی بنیاد پر اس وباء پر قابو پا لیا ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں نہ ہی اتنے وسائل ہیں اور نہ ہی اتنی ترقی کی ہے کہ وہ ان امراض پر فوری قابو پا سکیں ،بیماری سے بچاؤ کا واحد حل لوگوں کو آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ اپنے اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو اس بیماری سے بچانے کیلیے اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لائیں۔

ایمز ٹی وی(صحت)صفائی اور جسمانی صحت کے ماہرین ایک عرصے سے خبردار کررہےہیں کہ اگر کی بورڈ کی طرح آپ پانی کی مخصوص دستی بوتل کو صاف نہیں کرتے تو وہ خوفناک حد تک آلودہ ہوجاتے ہیں۔ اس بات کو جانچنے کے لیے امریکی ٹریڈ مل ریوز کمپنی نے ایک چھوٹے سے سروے میں کھلاڑیوں کے زیرِ استعمال پانی کی بوتل کو ایک ہفتے بعد دیکھا تو معلوم ہوا کہ ان میں اوسط بیکٹیریا کی تعداد 313,499 سی ایف یو ( کالونی فارمنگ یونٹس) فی سینٹی میٹر تھے۔ سب سے گندی بوتل میں 900,000 سی ایف یو تھے جو بیت الخلا کی سطح کے برابر آلودہ تھی جب کہ کسی جانور یا کتے کے کھلونے میں اوسطاً 2,937 سی ایف یو ہوسکتے ہیں۔

اس کی وجہ بوتلوں کو باقاعدگی سے صاف نہ کرنا اور پسینہ وغیرہ ہے جہاں روزانہ کے حساب سے جراثیم براجمان ہوتے رہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ڈھکنا اوپر سے کھلنے والی (سلائڈ ٹوپ) بوتل سب سے زیادہ آلودہ، اسٹرا والی بوتل میں سب سے کم اور گھومنے والے ڈھکنے کی بوتل میں اوسط جراثیم تھے۔ پلاسٹک کے مقابلے میں اسٹیل کی بوتل میں بہت ہی کم جراثیم تھے۔ اس لیے ماہرین کا مشورہ ہے کہ اگر جیب اجازت دے تو ایک ہی دفعہ میں اسٹیل کی بوتل خرید لیں۔ بصورتِ دیگر ہر دوسرے روز پلاسٹک بوتلوں کو اچھی طرح دھوئیں۔

ایمز ٹی وی(صحت)ماہرین کا ایک نئے مطالعے کے بعد کہنا ہے کہ زیادہ دیر بیٹھے رہنے سے ذہنی تناؤ اور ڈپریشن میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس سے قبل ماہرین دیر تک بیٹھے رہنے کو اتنا خطرناک قرار دے چکے ہیں کہ یہ قبل ازوقت موت کی وجہ بھی بن سکتا ہے اور اب آسٹریلیا کے ماہرین ایک سروے کے بعد بتا رہے ہیں کہ مسلسل دیر تک بیٹھے رہنا دماغ و ذہن کے لیے بھی بہت نقصان دہ ہوتا ہے اور یہ ذہنی تناؤ، بے چینی اور اداسی کی وجہ بن سکتا ہے۔

میلبورن میں ڈیکن یونیورسٹی سینٹر فار فزیکل اینڈ نیوٹریشن ریسرچ کی ماہرمیگن ٹیشین اور ان کے ساتھیوں کی نئی تحقیق بی ایم سی جرنل میں شائع ہوئی ہے اور ان کے مطابق مسلسل بیٹھے رہنے سے انسان میں امراضِ قلب اور ذیابیطس کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جب کہ یہ کئی نفسیاتی عارضوں کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ کمپیوٹر اسکرین نیند اڑانے والی ایک خوفناک شے ہے اور نیند کی کمی ذہنی تناؤ کی وجہ بنتی ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ کمپیوٹر پر بیٹھے بیٹھے لوگوں کا رابطہ حقیقی دنیا سے کٹ جاتا ہے اور وہ دوستوں اور گھروالوں سے بات نہیں کرتے اور یوں ان میں ڈپریشن بڑھتا ہے جب کہ تیسری وجہ یہ ہے کہ زیادہ دیر بیٹھنے سے جسم کا دورانِ خون سست ہوجاتا ہے اور ہارمون درست کام نہیں کرتے اور یوں ذہنی تناؤ اور افسردگی بڑھتی رہتی ہے۔

اب تک بیٹھے رہنے اور ذہنی تناؤ کی یہ آٹھویں تحقیق تھی جس میں واضح ہوا کہ ورزش ذہنی صحت کے لیے بھی یکساں طور پر ضروری ہوتی ہے اور بیٹھے رہنے کا ازالہ یہی ہے کہ ہفتے میں 2 سے 3 گھنٹے ورزش کی جائے۔ ماہرین کے مطابق اگر اب بھی لوگ ورزش نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ جان بوجھ کر اپنا برا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ ماہرین پہلے بھی کہتے رہے ہیں کہ عزیزوں اور دوستوں میں وقت گزارنے کے عین وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو کسی پین کلر دوا کھانے کے ہوتے ہیں اور اس لیے لوگوں سے ملنا جلنا بہت ضروری ہوتا ہے۔

اتوار, 21 اگست 2016 14:09

کوئٹہ کانگو وائرس کی زد میں

ایمزٹی وی(صحت)فاطمہ جناح اسپتال میں 4 روز قبل لائی گئی کانگو وائرس کی افغان مریضہ دم توڑ گئی ہے جس کے بعد ملک بھر میں رواں برس اس وائرس سے جاں بحق افراد کی تعددا 12 ہوگئی ہے۔

کوئٹہ کے فاطمہ جناح اسپتال کے حکام کے مطابق 4 روز قبل اسپتال کے ٹی بی سینٹوریم میں لائی جانے والی خاتون کا نام فاطمہ ہے اور اسے افغانستان کے صوبے قندھار سے علاج کے لئے لایا گیا تھا تاہم وہ جان کی بازی ہار گئی ہے ۔

اسپتال ذرائع کے مطابق 2 مزید مریض بھی اسپتال میں زیر علاج ہیں، قلعہ سیف اللہ سے تعلق رکھنے والے حبیب اللہ اور افغان مہاجر خاتون ثریا کے خون کے نمونے کراچی بھجوائے گئے تھے اور دونوں مریضوں میں کانگو وائرس کی تصدیق ہوگئی ہے۔ جب کہ رواں برس ملک بھر میں کانگو وائرس کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد 12 ہوگئی ہے۔

ایمز ٹی وی (صحت) سائنس کا ماننا ہے کہ ہماری سوچوں کا ہماری صحت اور زندگی پر بہت اثر پڑتا ہے۔ آپ نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہوگا جن کے پاس ایسی ’صلاحیت‘ ہوتی ہے کہ وہ کچھ برا سوچیں تو وہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جو شخص لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے خود کو بیمار ظاہر کرتا ہے وہ اصل میں بیمار رہنے لگتا ہے۔ دراصل یہ ہماری ذہنی کیفیات ہوتی ہیں جو ہمارے جسم کو یہ بتاتی ہیں کہ اب جسم کو ایسے ظاہر کرنا ہے۔ اس کی ایک مثال یوں ہے کہ اگر ہمیں بخار ہو لیکن ہم اسے نظر انداز کر کے کام میں لگے رہیں تو بخار ہمارے کام میں ذرا بھی رکاوٹ نہیں بنے گا، لیکن جہاں ہم نے سوچا کہ، ’مجھے بخار ہے، آج مجھے کام نہیں کرنا چاہیئے‘، وہیں بخار شدت سے ہم پر حملہ آور ہوگا اور ہم کوئی بھی کام کرنے سے مفلوج ہوجائیں گے۔ ماہرین کی ایک تحقیق کے مطابق جب ہم خیال کرتے ہیں کہ ہم بوڑھے ہوگئے ہیں اور نئے نئے تجربات کرنے سے یہ سوچ کر کتراتے ہیں کہ اب ہم اسے نہیں کر سکتے، تو ہمارا جسم حقیقت میں تیزی سے بوڑھا ہونے لگتا ہے۔ سائنسدانوں نے اس تحقیق کے لیے بوڑھے، اور بڑھاپے میں چست رہنے والے افراد کا انتخاب کیا۔

ایمز ٹی وی (صحت) ضرورت سے زائد سویٹنر کو استعمال کرنے والے بڑھتے وزن ، ذیابیطس ، ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوسکتے ہیں. میٹھے کا استعمال کس کو پسند نہیں ، دنیا بھر کے لوگ اپنے شوق اور ضرورت کے مطابق میٹھے کھانوں اور خوراک کا استعمال کرتے ہیں ۔ پاکستان میں بھی لوگ تقریبات اور دیگر خوشی کے مواقعوں پر میٹھے کا بے حد استعمال کرتے ہیں ۔ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق جہاں روز مرہ استعمال کی دیگر اشیا میں جدت و اختراعات رونما ہوئی ہیں وہیں میٹھے میں بھی مختلف اقسام کے مصنوعی ذائقے متعارف کروائے گئے ہیں ، ملک بھر کے مختلف جنرل سٹورز اور کریانہ دکانوں پر یہ سویٹنر پائوڈر اور گولیوں کی شکل میں موجود ہیں ۔ ہم ان گولیوں کو اپنی ضروریات کے مطابق استعمال تو کرتے ہیں لیکن ضرورت سے زائد استعمال سے ہمیں مختلف بیماریوں کا خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے ۔ ایک جدید تحقیق کے مطابق مصنوعی میٹھا استعمال کرنے والے وزن میں اضافے ، ذیابیطس ، بلند فشار خون (بلڈ پریشر ) ، میٹابولک سینڈروم کی بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں ، ماہرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ خوراک کے استعمال میں احتیاط نہ کی جائے تو انسان موذی بیماریوں کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ موت کے منہ میں بھی جاسکتا ہے ۔

ایمزٹی وی(صحت) دنیا بھر میں گردوں کی بیماریوں میں روز افروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ کشمیر میں ہزاروں لاکھوں لوگ گردوں کے امراض میں مبتلا ہیں ، مگر وہ بے خبری کے عالم میں زندگی کی شاہراہ پر ’’رینگ ‘‘رہے ہیں ۔ ان کے علامات اتنے واضح یا شدید نہیں ہوتے کہ وہ کسی معالج سے مشورہ کرنے کے بارے میں سوچ سکیں ۔ گردوں کے دیرینہ یا مزمن مرض میں مبتلا ہونے کے بعد گردوں کی ناکامی میں مبتلا ہونے کے درمیان برسوں کا فاصلہ ہوتا ہے ۔ بعض لوگ گردوں کے دیرینہ امراض میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی ایک نارمل زندگی گزارتے ہیں ۔ انہیں کبھی گردوں کی ناکامی کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑتا ہے ۔ بہرحال عام اور سیدھے سادے لوگوں کے لئے گردوں کی بیماریوں سے متعلق معلومات ایک طاقت ہے ۔ اگر وہ گردوں کی بیماریوں کے علامات کی معلومات رکھتے ہوں تو وہ مرض میں مبتلا ہوتے ہی کسی معالج سے مشورہ کرسکتے ہیں ۔ اگر آپ یا آپ کا کوئی آشنا درج ذیل علامات میں سے ایک یا ایک سے زیادہ کا اظہار کرتا ہے تو آپ کو فوری طورکسی ماہر معالج سے مشورہ کرنا چاہئے۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ بعض علامات گردوں کی بیماریوں کیبجائے کسی اور بیماری کی وجہ سے بھی ہوسکتے ہیں ۔

علامت نمبر1: ہر انسان میں ریڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف دو گردے ہوتے ہیں ۔ ان کا کام جسم کے اندر موجود محلول(پانی)اور دیگر مائع جات کو فلٹر کرنا ہے اور جسم سے ردی، فالتو اور زہریلا مواد خارج کرنا ہے۔ پانی اور نمکیات کی مقدار کو طبعی حدود میں رکھنے کے علاوہ بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنا ہے اور خون میں خلیات کی تعداد کو مقررہ مقدار میں رکھنے کے لئے ہارمون ترشح کرنا ہے ۔ اگر گردوں یا اس کے ساتھ وابستہ اعضاء میں کوئی خرابی یا بیماری ہو تو پیشاب کے رنگ اور بہاؤ میں بدلاؤ آسکتا ہے ۔ آپ کے پیشاب کا رنگ بدلا ہوا ہے ، نارمل پیشاب ہلکے قہوہ رنگ کا ہوتا ہے ۔ اگر یہ لال، زیادہ پیلا، پیلا، سبز، کالا، سفید دودھیا، زیادہ جھاگ دار، نیلا، نارنجی یا گہرے رنگ کا ہو تو فوری آزمائش ادرار کریں ۔ آپ کو بار بار پیشاب کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ آپ بہت زیادہ یا بہت کم پیشاب کرتے ہیں۔پیشاب رُک رُک کر آتا ہے۔ پیشاب کرتے وقت ہچکچاہٹ ، جلن یا سوزش محسوس ہوتی ہے۔اگر جلدی سے باتھ روم نہ پہنچے، تو پیشاب قطرہ قطرہ ٹپکنے لگتا ہے یا اس پر کنٹرول ہی نہیں رہتا ہے ۔ ایسامحسوس ہوتا ہے، جیسے پیشاب کرنے کے بعد ابھی مثانہ پوری طرح خالی نہیں ہوا ہے ۔ پیشاب کے ساتھ (یا پیشاب کرنے سے پہلے یا آخر میں )خون بھی آتا ہے ۔ پیشاب کرتے وقت زور لگا نا پڑتا ہے تاکہ مثانہ خالی ہو جائے ۔ رات کو دو تین بار جاگنا پڑتا ہے ۔ پیشاب کرنے کے لئے جاگنے کی وجہ سے نیند میں خلل پڑتا ہے ۔

علامت نمبر 2: جب گردوں کو کوئی مرض بہت دیر تک اپنی لپیٹ میں لئے پھرے تو دونوں گردے دھیرے دھیرے خستہ ہو جاتے ہیں اور وہ اضافی پانی جسم سے خارج کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں ، جس سے پیروں ، ٹخنوں ، ٹانگوں ، ہاتھوں میں اور چہرے پر ورم ظاہر ہو جاتا ہے ۔ صبح کے وقت آنکھوں کے نچلے حصوں میں ورم نمایاں ہوتا ہے اور ٹانگوں ، پیروں ، ٹخنوں پر اگر ہاتھ کے انگوٹھے سے دباؤ ڈالا جائے ، تو دبانے کی جگہ گڑھا جیسا نمودار ہو جاتا ہے۔

ایمز ٹی وی (ایمز ٹی وی) انسانیت کی خدمت کے لیے کوشاں پاکستانی نوجوانوں نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جو کہ ہر پاکستانی کے زخموں کا مرہم بن رہا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کئی مریض آگاہی اور ڈاکٹروں تک رسائی نہ ہونے کے سبب بعض ایسی بیماریوں میں بھی زندگی کی بازی ہارجاتے ہیں جن کاعلاج اگر بروقت کر لیا جائے تووہ اس قدرسنگین نہیں ہوتیں۔ گلی کوچوں میں بیٹھے عطائی ڈاکٹر بھی معاشرے کی تکلیف بڑھانے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنے میں پیش پیش ہیں۔

شہریوں کے انہی مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستانی نوجوانوں کے ایک گروہ نے ’مرہم‘ کے نام سے ایک مفت آن لائن کمیونٹی اور موبائل ایپ تشکیل دی ہے جہاں ملک بھر کے قابل اور نامور ڈاکٹر نہ صرف مریضوں کی رہنمائی کے لیے مفت مشورے فراہم کرتے ہیں بلکہ موبائل فون کے ذریعے ڈاکٹروں سے اپائنٹمنٹ بھی لیا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اگر مریض کسی بیماری کے سلسلے میں ماہر ڈاکٹر کی تلاش میں سرگرداں ہیں تو مرہم کی موبائل ایپ کے ذریعےمحض بیماری کے نام سے ہی آپ اپنے قریبی علاقے میں اس مخصوص مرض کے ماہر کو تلاش کرسکتے ہیں اور ان کا اپائنٹمنٹ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

مرہم اس کام کے لیے کسی قسم کے کوئی چارجز نہیں لیتی، یہ ایپ اینڈرائیڈ اور آئی فون دونوں کے لیے موجود ہے اور مرہم کی ویب سائٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے۔ مرہم کا آغاز ایک فیس بک پیج کے ذریعے ہوا جسے ملک کے طول و عرض میں موجود ڈاکٹروں نے بے پناہ سراہا جس کے بعد مرہم اب ڈاکٹروں اور مریضوں کے درمیان رابطے کی پاکستان کی سب سے بڑی آن لائن کمیونٹی کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے