اتوار, 24 نومبر 2024


محکمہ تعلیم دو حصوں میں تقسیم

ایمزٹی وی(تعلیم/ سندھ)حکومت سندھ نے صوبے میں محکمہ تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے

۔وزیر اعلیٰ ہاؤس سے جاری اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ صوبے میں تعلیم اورشرح خواندگی کے محکمہ کو دو الگ الگ محکموں میں تقسیم کیا جائے گا ۔ جو اسکول ایجوکیشن اور دوسرا کالج ایجوکیشن میں تقسیم کیا جائے گا تاکہ پرائمری اور کالج سطح پر صحیح طریقے سے توجہ دی جا سکے

بریفنگ دیتے ہوئے سیکریٹری تعلیم فضل اﷲ پیچوہو نے کہا کہ صوبہ میں 45447اسکول ہیں جہاں پر 145000ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کام کر رہا ہے ۔ اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ ایک سیکریٹری کیلئے ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک وقت میں اسکول اور کالجز کو دیکھے ۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ انہیں رپورٹس ہیں کہ چند اسکولوں میں زائد ٹیچنگ اسٹاف ہے جبکہ زیادہ تر اسکولوں میں اسٹاف کی کمی کا مسئلہ ہے ۔ انہوں نے سیکریٹری تعلیم کو ہدایت کی کہ وہ یونین کونسل کی سطح پر ٹیچرز بھیجیں جس کیلئے انہیں بھرتی کیا گیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بہتر تعلیمی سرگرمیوں کیلئے اسٹاف کی معقول تعداد بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ محکمہ کو اس فیصلہ پر عملدرآمد کرنا ہے۔ سید مراد علی شاہ نے محکمہ تعلیم کو ہدایت کی کہ وہ یونین کونسل کی سطح سے اسکول کا ڈیٹا جمع کرنا شروع کریں۔
اس سے اسکولوں کے قابل عمل اور غیر قابل عمل اور اساتذہ اور طلباء کے صحیح اعداد و شمار کا پتا چل سکے گا۔

انہوں نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ ضلعی انتظامیہ کو ضروری ہدایات جاری کریں کہ وہ اسکولوں کے دورے کریں۔انہوں نے کہا کہ ایک مختیارکار اپنے علاقے کے پرائمری اسکولوں کے اور اسسٹنٹ کمشنر سیکنڈری اسکولز اور ڈی سی کالجز کے دورے کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے ایم پی اے ، چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل اور متعلقہ ڈپٹی کمشنر پر مشتمل ایک مانیٹرنگ کمیٹی بھی تشکیل دینے کی ہدایت کی جو حلقہ کے حساب سے اسکولوں کی کارکردگی کو دیکھے گی، جن کا مجموعی طور پر ایم پی اے ذمہ دار ہوگا۔وزیراعلیٰ سندھ نے محکمہ تعلیم کو ہدایت کی کہ وہ ہر ایک اسکول کیلئے داخلوں کا ہدف مقرر کرے

وزیراعلیٰ ہاؤس کے کانفرنس روم میں منعقدہ اجلاس میں صوبائی وزیر تعلیم جام مہتاب ڈہر،چیف سیکریٹری سندھ صدیق میمن، سیکریٹری تعلیم فضل اﷲ پیچوہو، اے سی ایس (ترقیات) محمد وسیم، وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری نوید کامران بلوچ و دیگر نے شرکت کی۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment