ایمز ٹی وی ( تعلیم) سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے 5فیصد سے زائد فیس بڑھانے والے نجی تعلیمی اداروں کے خلاف فیصلہ آنے سے صوبائی محکمہ تعلیم تذبذب کا شکار ہے کہ وہ کس طرح اس فیصلے پر عملدرآمد کرائے کیونکہ نجی اسکولوں کو مانیٹر کرنے والے ادارے ڈائریکٹر پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز میں عملہ نہ ہونے کے برابر ہے اور جو اسکولز اپنی 10فیصد سے زائد فیس والدین سے گزشتہ سال سے وصول کر رہے ہیں انھیں واپس کیسے دلائیں۔
محکمہ تعلیم کے قواعد کے مطابق تمام نجی اسکول ہر سال 5فیصد فیس بڑھا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں محکمہ تعلیم سے پہلے منظوری لینی پڑے گی۔
قواعد کے مطابق کوئی بھی نجی اسکول اپنی تین ماہ کی ٹیوشن فیس سے زیادہ داخلہ فیس وصول نہیں کر سکتا ہے لیکن 90فیصد اے اوراو لیول اسکولز اپنی ٹیوشن فیس کا 5سے 10گنا داخلہ فیس وصول کر رہے ہیں اس طرح قواعد میں نہ سیکیورٹی فیس لی جا سکتی ہے نہ ہی سالانہ چارجز اور نہ ہی کمپیوٹر اور لائبریری فیس مگر بیشتر اے لیول او لیول اور میٹرک سسٹم کے اسکول یہ فیس بھی وصول کر رہے ہیں ۔
جس کی وجہ سے سندھ میں تعلیم ایک بزنس بن گئی ہے اور تعلیم کے نام پر فرنچائز کھلنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ کراچی میں 8ہزار سے 10ہزار نجی اسکولز ہیں جن کو مانیٹر کرنے کیلئےڈی جی ڈاکٹر منسوب صدیقی سمیت 5افسران پر مشتمل عملہ ہے اور شہر میں 10ہزار نجی اسکولز ہیں جبکہ کراچی میں سرکاری پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کی تعداد تین ہزار چھ سو ہے جن کیلئے 20گریڈ کے دو ڈائریکٹرز ایک سیکنڈری اور دوسرا پرائمری جبکہ اس کے ساتھ ایڈیشنل ڈائریکٹرز کی تعداد بھی دو ہے۔ 6اضلاع میں19گریڈ کے ڈی اوز اور ان کے نائبین موجود ہیں ۔18گریڈ کے 36 اے ڈی اوز اوران کےنیچے تین سو پچاس سپروائزرز موجود ہیں۔
جو ان سرکاری اسکولوں کو مانیٹر کرتے ہیں جبکہ پورے کراچی میں 10ہزار نجی اسکولوں کو مانیٹر کرنے والے افسران کی تعداد محض 5ہے۔ماضی میں ڈائریکٹر اسکول کے ماتحت ہی پرائیویٹ اسکول بھی آتے تھے تو سرکاری کے ساتھ نجی اسکولوں کی مانیٹرنگ اچھی ہو جایا کرتی تھی اور شکایات بھی کم تھیں لیکن چند سال قبل ان کو ڈائریکٹر اسکولز سے علیحدہ کرکے نجی ڈائریکٹوریٹ قائم کر کے محکمہ تعلیم نے نجی اسکولوں پر اپنا کنٹرول خود کم کیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال سابق وزیرتعلیم نثار کھوڑو کے دور میں نجی اسکولوں کو 10 فیصد یا اس سے زائد فیس بڑھانے کی اجازت دینے کے غیرمنصفانہ فیصلے کے باعث شہری عدالت میں چلے گئے اور فیصلہ شہریوں کے حق میں ہوا۔