اتوار, 24 نومبر 2024


پاکستانی طالبعلموں نے معذوروں کی زندگی آسان بنادی

ایمزٹی وی (تعلیم/ کراچی) ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے طالبعلموں نے آٹزم، پارکنسن اور فالج کے شکار مریضوں کی مدد کے لئے مختلف انواع و اقسام کے ایسے شاندار پراجیکٹس تیار کئے ہیں جنہیں جان کر آپ بلا ساختہ ملک کے ہونہار طالبعلموں کو داد دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر فرزانہ اشفاق اور دیگر سینیئر اساتذہ کی زیر نگرانی ڈاؤ یونیورسٹی کے شعبہ میڈیکل ٹیکنالوجی کے تحت آکیوپیشنل تھراپی ڈپارٹمنٹ کے طالبعلموں کی تیار کردہ ایجادات اور اختراعات کی نمائش ہوئی جس میں طالبعلموں کی جانب سے فالج، دماغی عارضوں، حادثات اور دیگر وجوہ سے متاثر ہونے والے مریضوں کی مدد کے لیے مختلف پراجیکٹس پیش کئے گئے۔
اس کے علاوہ یونیورسٹی کے طالبعلوں کی جانب سے آٹزم اور سیریبرل پالسی ( بچپن سے دماغ پر اثر انداز ہو کر مفلوج کرنے والی بیماری) کے شکار بچوں میں سیکھنے، لکھنے اور احساس پیدا کرنے والے بھی کئی پروجیکٹس شامل تھے۔
یونی ورسٹی کی دو طالبات اریبہ خان اور عبیرہ قاسم نے گرومنگ کِٹ تیار کی جس کے ذریعے خواتین لپ اسٹک، نیل پالش اور بالوں میں کنگھا کرسکتی ہیں۔ مرض یا معذوری کی وجہ سے کئی افراد کا ہاتھ مطلوبہ مقام تک نہیں پہنچ پاتا اور اسی لیے مختلف اشیا پر ہلکے پھلکے اور طویل ہینڈل لگائے گئے تھے تاکہ خواتین باآسانی اس گرومنگ کٹ کا استعمال کر سکیں۔
خصوصاً چلنے پھرنے سے معذور افراد کو بستر سے وہیل چیئر اور غسل خانے تک منتقل کرنا ایک بہت مشکل عمل ہوتا ہے۔ اس مسئلے کا حل حفصہ سخی اور اثنا آصف نے ’ ایک خمیدہ تختہ‘ Curve Transfer Board کی صورت میں پیش کیا۔ اس کے ذریعے مریض کو بستر سے وہیل چیئر اور وہیل چیئر سے کموڈ تک آسانی سے منتقل کیا جا سکتا ہے۔
رمشہ منصور اور کشف فاطمہ نے آٹزم زدہ بچوں میں نفیس حرکات (فائن موٹر موومنٹس) کو فروغ دینے اور انہیں مصروف رکھنے کے لیے کارڈ بورڈ پر جانوروں کی تصاویر بنائیں جن میں سوراخ تھے اور ان میں موٹی ڈور گزر سکتی ہیں۔ طالبات نے بتایا کہ بچے جانوروں کی تصاویر میں دلچسپی لیتے ہیں اور ان کے کٹ آؤٹ میں بنائے گئے چھید سے وہ دوڑ گزار کر اپنے ہاتھوں اور انگلیوں کی حرکات کی بہتر مشق کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے قلم پر مختلف چیزوں کا اضافہ کرکے مریضوں کو لکھنے کے قابل بنانے والی اشیا بھی تیار کی تھیں۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment