ایمزٹی وی (تعلیم) ہمدرد یونیورسٹی میں ہونے والے امتحان میں شرکت کی اجازت نہ ملنے پر مبینہ طور پرخود سوزی کرنے والے طالب علم کی موت کا معاملہ معمہ بن گیا جب کہ ان کے اہلخانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے عبدالباسط کو جلایا اور میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر نے عبدالباسط سے 10 لاکھ روپے پاس کرنے کے مانگے تھے۔ متوفی کے بھائی نے یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کروانے کیلئے تیموریہ تھانے میں درخواست جمع کروا دی ہے ۔
متوفی عبدالباسط کی والدہ نے نماز جنازہ سے قبل اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہو ئے کالج کی انتظامیہ اور متعدد پروفیسر پر الزام عائد کیا کہ کالج میں کرپشن کا بازار گرم ہے اور بچوں کو پاس کرنے کے لیے لاکھوں روپے طلب کیے جاتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ میرے بیٹے سے کالج کے ایک پروفیسر نے پاس کرنے کے لیے 10لاکھ روپے طلب کیے تھے جس پر وہ کافی پریشان تھا ،انہوں نے بتایا کہ میرے بیٹے کی المناک موت کے بعد اس کے دوستوں کو زبان بندی کے لیے دھمکیاں دی جارہی ہیں گورنر سندھ اور دیگر اعلیٰ حکام سے اپیل ہے کہ میرے بیٹے کی موت کی شفاف تحقیقات کروائی جائیں اور ذمہ داروں کو کڑی سزا دی جائے
۔کیونکہ میرے بیٹے نے خودسوزی نہیں کی بلکہ اسے قتل کیا گیا ہے ۔عبدالباسط کی والدہ کا کہنا ہے کہ ہمدرد یونیورسٹی میں کام کرنے والے سارے ڈاکٹر ایک جیسے نہیں لیکن ڈاکٹر ندیم کھوکھر بچوں کو پاس کرنے کے لئے لاکھوں روپوں کا مطالبہ کرتے ہیں، ڈاکٹرفرحت، ڈاکٹر ندیم کھوکھر،ڈاکٹرابرار اور ڈاکٹرفرقان میرے بیٹے کی موت کے ذمہ دارہیں اورانہی لوگوں نے اسے مارا ہے جب کہ کیمپس کا سیکیورٹی گارڈ بھی آگ لگانے میں ملوث ہے۔