Friday, 29 November 2024


عید الاضحٰی کےآتے ہی کانگو وائرس نے بھی سر اُٹھا لیا

ایمزٹی وی(کراچی) میں سپر ہائی وے پر ایشیا میں جانوروں کی سب سے بڑی منڈی سج گئی۔

منڈی کے منتظم جہانگیر اللہ رکھا نے بتایا کہ منڈی سات سو ایکٹر اراضی پر پھیلی ہوئی ہے، جس پر ہزاروں کی تعداد میں گائیں اور دیگر جانوروں کی خرید و فروخت ہوگی۔۔

تاہم، منڈی کے آغاز کے ساتھ ہی شہر میں کانگو وائرس کا خوف بھی لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کر گیا ہے۔ بیشتر افراد اس تذبذب میں ہیں کہ اس بار منڈی جائیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو پھر قربانی کے لئے جانور کہاں سے لائے جائیں؟

محکمہٴ صحت سندھ کی جانب سے بار بار کانگو سے بچنے کی احتیاطی تدابیر کی تشہیر کی جا رہی ہے، اس کے باوجود، کانگو سے حالیہ ہفتوں کے دوران چار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

پالتو جانوروں کی جلد میں موجود ’چچڑی‘ نامی کیڑے سے پھیلنے والے کانگو وائرس کا خوف اس وجہ سے بھی بہت زیادہ ہے کیوں کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر عمومی طور پر ہر گھر میں گائے، بکرا یا بھیڑ قربانی کی غرض سے لائے اور پالے جاتے ہیں۔

شہر کے مختلف اور تین بڑے اسپتالوں میں خدمات کا تجربہ رکھنے والے 70 سالہ ڈاکٹر سلیم اللہ نے بتایا کہ ’’انسانوں اور جانوروں کے درمیان رابطے کے سبب چچڑی انسانوں میں منتقل ہو جاتی ہے جس انسانوں میں وائرس پھیلتا اور اموات کا سبب بنتا ہے۔ کیوں کہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔‘‘

کراچی میں کانگو وائرس سے ہونے والی اموات میں ایک ڈاکٹر بھی شامل ہے جن کا تعلق ملتان سے تھا۔ ڈاکٹر صغیر احمد وائرس کے مریضوں سے متاثر ہوئے تھے اور علاج کی غرض سے انہیں کراچی لایا گیا تھا۔ لیکن وہ دورانِ علاج ہی چل بسے۔

ڈاکٹر سلیم اللہ کے مطابق ’’جانوروں سے انسان میں اس وائرس کی منتقلی کی روک تھام کے لئے ذبیحہ خانوں، مویشی منڈی اور باڑوں میں کام کرنے والے افراد کو خصوصی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

لیکن، کراچی سمیت ملک بھر میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر زیادہ تر نوجوان قربانی قصاب سے کرانے کے بجائے خود کرتے ہیں، جبکہ اس سے قبل کئی کئی ہفتوں تک وہ قربانی کے جانوروں سے رابطے میں رہتے ان کی دیکھ بھال کرتے اور پالتے ہیں۔

ایسے میں وہ خود احتیاطی تدابیر اپنانا یا تو بھول جاتے ہیں یا پھر دوچار دن بعد ان کا کانگو وائرس سے خوف ختم ہو جاتا ہے، اور وہ پر اعتماد ہو جاتے ہیں کہ کم از کم ان کے جانور میں وائرس موجود نہیں

Share this article

Leave a comment