Saturday, 30 November 2024


دنیا بھر میں ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کی تعداد 110 کروڑ تک جاپہنچی

ایمز ٹی وی (صحت) مشہور طبّی تحقیقی جریدے ’’دی لینسٹ‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2015 کے اختتام تک دنیا بھر میں ہائی بلڈ پریشر (ہائپرٹینشن) کے مریضوں کی تعداد 110 کروڑ تک جاپہنچی ہے جو اس وقت عالمی آبادی کا تقریباً 16 فیصد ہے۔ چالیس سال پر محیط اس جائزے میں بتایا گیا ہے کہ 1975 میں ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کی عالمی تعداد 59 کروڑ 40 لاکھ (594 ملین) تھی جو 2015 تک بڑھ کر 1.1 ارب (110 کروڑ یا 1100 ملین) ہوچکی تھی۔ ان میں 597 ملین مرد اور 529 ملین خواتین شامل تھیں۔ واضح رہے کہ ہائی بلڈ پریشر (بلند فشارِ خون) یا ہائپرٹینشن کو ’’خاموش قاتل‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دل کے دورے اور فالج سمیت کئی خطرناک اور جان لیوا بیماریوں کی ایک جڑ ہے۔

اس مطالعے میں یہ بات خاص طور پر نوٹ کی گئی کہ امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا سمیت، زیادہ آمدنی والے بیشتر ممالک میں اس چالیس سالہ عرصے کے دوران صحت مند لوگوں میں بلڈ پریشر کے اوسط کمی واقع ہوئی ہے؛ جبکہ جنوبی ایشیا اور زیریں افریقہ کے ملکوں میں صحت مند لوگوں کا اوسط بلڈ پریشر بھی بڑھا ہے۔ اگرچہ اس کی وجہ معلوم نہیں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ زیادہ آمدنی والے ترقی یافتہ ملکوں میں لوگوں کو بہتر غذائی سہولیات میسر ہیں اور وہ زیادہ سہولت سے پھلوں اور سبزیوں کی زیادہ مقدار سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ان کے برعکس غریب اور پسماندہ ممالک میں عام لوگ بمشکل تمام دو وقت کی روٹی ہی کا بندوبست کرپاتے ہیں اور ان کےلئے سبزیوں اور پھلوں پر مشتمل متوازن غذا کا حصول انتہائی مشکل رہتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے چالیس سال میں غربت بڑھنے اور ناقص غذا کی وجہ سے بھی شاید غریب ممالک میں لوگوں کے اوسط بلڈ پریشر میں اضافہ ہوا ہے جو ایک علیحدہ پریشانی کی بات ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق 2015 میں ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کی سب سے بڑی تعداد ایشیا میں مقیم تھی؛ جن میں سے 22 کروڑ 60 لاکھ (226 ملین) چین کے جبکہ 20 کروڑ (200 ملین) بھارت کے رہائشی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے 2025 تک ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کی عالمی تعداد میں 25 فیصد کمی کرنے کا ہدف مقرر کیا ہوا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اعداد و شمار کی روشنی میں اس ہدف کا حصول انتہائی مشکل ہے کیونکہ ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کی تعداد کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔

Share this article

Leave a comment