ایمز ٹی وی(صحت) اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے دھاگے کھینچنے سے گھومنے والے پہیئے کے طرح کاغذی پہیہ بنایا ہے جس کی قیمت صرف 15 روپے ہے اور یہ 90 سیکنڈ میں خون میں چھپے جراثیم ظاہر کرسکتا ہے۔
اسے ’پیپر فیوج‘ کا نام دیا گیا ہے جو اصل سینٹری فیوج مشینوں کی طرح کام کرتا ہے۔ خون کے اجزا الگ کرنے والی ان مشینوں کی قیمت 2 سے 10 لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔ مشینوں میں خون نے نمونے رکھ کر انہیں تیزی سے گھمایا جاتا ہے جس سے خون کے اجزا الگ الگ ہونے لگتے ہیں ۔ عین اسی اصول پر خون میں موجود بیماریوں کے جراثیم بھی الگ الگ کرکے دیکھا جاسکتا ہے کہ مرض کس مرض میں مبتلا ہے۔
اسی اصول پر پیپرفیوج کام کرتا ہے جو پہلی مرتبہ دیکھنے پر ایک کھلونا لگتا ہے۔ اسے غریبوں کی ایجاد کہا جاسکتا ہے جو صرف 90 سیکنڈ میں خون کے نمونے میں ملیریا اور ایچ آئی وی شناخت کرسکتی ہے۔ ایجاد کو بجلی سے محروم انتہائی غریب علاقوں کے لیے بنایا گیا ہے۔
گول کارڈ کے دونوں حصے کھول کر ان میں خون بھری باریک کیپلری ٹیوبس چپکادی جاتی ہین اور اس کے بعد ڈسک کو گول گھما کر دھاگے کھینچ کر مزید تیزی سے گھمایا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس کا گھماؤ آخری رفتار تک ہوجاتا ہے ۔ اسطرح صرف ڈیڑھ منٹ میں خون کے بنیادی ذرات الگ ہونے لگتے ہیں۔ مجموعی طور پر پیپرفیوج ایک منٹ میں 125000 چکر لیتا ہے۔
اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے طالبعلم مانوو پرکاش کے مطابق یہ انسانی قوت سے چلنے والا تیز ترین گھماؤ والی سادہ مشین ہے۔ پوری دنیا میں مہنگی سینٹری فیوج مشینوں سے ملیریا، ایچ آئی وی، ٹی بی اور سلیپنگ سِکنیس ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ اس گھماؤ سے مرض کے جراثیم الگ ہوجاتے ہیں اور ان کی شناخت آسان ہوجاتی ہے۔ لیکن پسماندہ ممالک میں کہیں یہ مشینیں نہیں کیونکہ یہ بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ کہیں انہیں چلانے والے عنقا ہیں تو کہیں بجلی غائب ہوتی ہے۔ پرکاش کے مطابق دنیا کی ایک ارب آبادی بجلی ، پینے کے صاف پانی اور پکی سڑکوں سے محروم ہے۔ لیکن انہوں نے یہ مشین ملیریا کی شناخت کے لیے تیار کی ہے۔
اسے بنانے کے لیے کئی ڈیزائن تیار کئے گئے اورآخر کار سب سے تیز گھماؤ والی ڈسک بن گئی جو سوالاکھ چکر کھاتی ہے۔ تجربہ گاہ میں صرف 15 منٹ گھماؤ سے خون کی کے سرخ خلیات الگ ہوجاتے ہیں جبکہ ملیریا کا پلازموڈیم ڈیڑھ سے دو منٹ میں بقیہ خون سے دور ہوکر شناخت کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔