ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت وقفے کے بعد جاری ہے جہاں اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد کے دلائل مکمل ہونے کے بعدحسین نوا ز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے روسٹرم سنبھال لیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہو چکی ہے اور وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کے وکیل نے اپنے دلائل کا آغاز کر دیا ہے ۔وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے بھی میاں شریف کی وراثتی جائیداد کی تقسیم کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہیں۔
سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت شروع ہوتے ہی نیب نے اسحاق ڈار کی معافی سے متعلق ریکارڈ عدالت میں جمع کرا دیا ۔ وکیل شاہد حامد نے عدلت کو بتایا کہ اسحاق ڈار کی نااہلی کیلئے لاہو ر ہائیکورٹ سے درخواست اورانٹرا کورٹ اپیلیں خارج ہوئیں ، نواز شریف اور دیگر کے خلاف ریفرنس خارج کرنے کا معاملہ رپورٹ کیا جا چکا ہے جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ فیصلہ میں ریفرنس خارج اور تفتیش نہ کرنے کا کہا گیا ؟ وکیل نے جوا ب دیا کہ دوبارہ تفتیش پر 2رکنی بینچ میں اختلاف تھا اسلئے فیصلہ ریفری جج نے سنایا ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ منی لانڈرنگ کسی میں ریفری جج کو اپنی رائے پر فیصلہ دینا تھا۔ آپ دلائل مکمل کرلیں پھر پراسیکیوٹر جنرل نیب سے پوچھیں گے۔ اسحاق ڈار کو مکمل معافی دی گئی ، اسحاق ڈار نے چیئرمین نیب کو معافی کی تحریری درخواست خود دی اور معافی کے بعد اسحاق ڈار ملزم نہیں رہے ۔
شاہد حامد نے جواب دیا کہ ریفری جج نے نیب کی دوبارہ تحقیقات کی درخواست مسترد کی جس پر جسٹس گلزار احمد نے شاہد حامد کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا اس عدالتی فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ؟اسحاق ڈار کے وکیل نے دلائل دیے کہ اس فیصلے
کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا اور عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا وقت ختم ہو چکا ۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان وعدہ معاف گوا ہ بننے کے بعد ریکارڈ ہوا، کیا وعدہ معاف گواہ بننے والے کی حفاظت کیلئے اسے تحویل میں کھا جاتا ہے ،بتایا جائے کیا بیان ریکارڈ کرانے والا مجسٹریٹ عدالت میں پیش ہواتو کیل نے بتایا کہ اس وقت نیب قوانین کے تحت مجسٹریٹ کا پیش ہونا ضروری نہیں تھا ۔ اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ کیس ختم ہو گیا اب صرف الزام کی بنیاد پر نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ یہ 25سال پرانا معامہ ہے جسے 13سے زائد ججز سن چکے ہیں ۔منی لانڈرنگ کے الزام کے وقت اسحاق ڈار کے پاس عوامی عہدہ نہیں تھا ۔نیب ریکارڈ کے مطابق اسحاق ڈار اب ملزم نہیں رہے۔ شاہد حامد نے بتایا کہ ہائیکورٹ کے 5ججز نے کہا کہ ایف آئی اے کو بیرونی اکاﺅنٹس تحقیقات کاا ختیار ہے۔
نیب ریکار ڈ میں کہا گیا ہے کہ 20اپریل 2000ءکو اسحاق ڈار نے معافی کی درخواست دی اور 21اپریل کو چیئرمین نیب نے معافی کی درخواست منظور کی ۔ 24اپریل کو تحقیقاتی آفیسر نے بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست دی اور 25اپریل کو اسحا ق ڈار کا اعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہوا ۔