Friday, 29 November 2024


تھیلیسیمیا کی روک تھام کےلئے بنائے گئے قانون پرتاحال عمل درآمد نہیں کیا جاسکا

صوبے میں تھیلیسیمیا کی روک تھام کےلئے بنائے گئے قانون پرتاحال عمل درآمد نہیں کیا جاسکا۔شادی سے قبل دولہا اوردلہن کا تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازم قرار دیئے جانے کے باوجود ٹیسٹ نہیں کرائے جارہے جبکہ نکاح خواں کی جانب سے بھی نکاح سے قبل ٹیسٹ کی رپورٹ کا تقاضہ نہیں کیا جارہا جس سے اس مرض کو روکنے میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو پارہی۔صوبے میں تھیلیسیمیاکے مرض کی روک تھام کےلئے سندھ اسمبلی میں 14جنوری2014 کو تھیلیسیمیا بل پیش کیا گیا جس کی منظوری ایوان نے دی تاہم3سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اس کو نافذ نہ کیا جاسکا۔ جس پر صوبائی محکمہ صحت نے عملدرآمد کے لئےگزشتہ سال اکتوبر میں اعلامیہ جاری کیا تھا جس کی رو سے دولہا ، دلہن اور دلہن کے ولی کی طرف سے مقررکردہ فارم کا ایک قانونی اقرار نامہ رجسٹرڈ نکاح خواں /خطیب کو دینا لازم ہے ایسا نہ کرنے پر نکاح رجسٹرڈ نہیں ہوگا جبکہ اس پر 3ماہ کی سزا اور 50ہزار روپے جرمانہ بھی عائد ہو سکتاہے

 لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکا۔اس ضمن میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر امراض ِ خون ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے بتایا کہ تھیلیسیمیا کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے حکومت سندھ کویہ تجویز پیش کی تھی کہ صوبے میں اس مرض کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے جس پرقانون سازی کر بھی لی گئی لیکن عمل درآمد نہیں کرایا گیا ۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 5 ہزار بچے تھیلیسیمیاکا مرض لے کر پیدا ہو رہے ہیں اس وقت ملک میں ایک لاکھ بچے تھیلیسیما میں مبتلا ہیں جبکہ ایک کروڑ افراد تھیلیسیمیامائنرکا شکار ہیں۔ تھیلیسیمیا مائنر کے مریض بظاہر صحت مند ہوتے ہیں مگر ان کی شادی تھیلیسیمیا مائنر کے ساتھ ہوجائے تو اس سے تھیلیسیمیا میجر کا بچہ جنم لے سکتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بل میں دولہا کا تھیلیسیماکا ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا ہے اگر دولہا تھیلیسیما مائنر کا مریض ہوگا تب ہی دلہن کا بھی تھیلیسیما کا ٹیسٹ کرایا جائے گابصورت دیگر دلہن کو ٹیسٹ سے استثنیٰ دیا جائے گا کیونکہ ایسی صورت میں پید ا ہونے والے بچے کو تھیلیسیما نہیں ہو سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ شادی سے قبل تھیلیسیمیاٹیسٹ کے ذریعے اس کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن صوبائی اور وفاقی سطح پر اس مرض پر قابو پانے ، اس کے انسداد اور روک تھام کے لئے کوئی واضح پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے اس مرض کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔

 

Share this article

Leave a comment