ایمزٹی وی(ٹیکنالوجی)دورانِ پرواز تمباکو نوشی کی سختی سے ممانعت ہوتی ہے لیکن امریکا کی بوئنگ کارپوریشن نے ساؤتھ افریکن ایئرویز کے تعاون سے ایک ایسا مسافر بردار طیارہ بنالیا ہے جو تمباکو کے پودے سے حاصل کردہ ایندھن استعمال کرتا ہے۔’’پروجیکٹ سولارِس‘‘ نامی اس منصوبے پر 2014 میں کام شروع کیا گیا اور اس کے تحت جنوبی افریقا کے صوبے لمپوپو میں کاشت ہونے والے تمباکو کے پودے استعمال کیے گئے۔
تمباکو کے پودوں سے توڑی گئی پتیوں کو مختلف مرحلوں سے گزار کر ان میں موجود نکوٹین اور دوسرے مادّوں کو ایندھن میں تبدیل کیا گیا۔ اس ایندھن کا نام ’’سولارِس فیول‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس کی مختلف آزمائشوں میں اطمینان کیا گیا کہ یہ ایندھن مسافر بردار طیاروں میں جیٹ ایندھن کی جگہ استعمال ہوسکتا ہے اور اس کے بعد ہی اسے تجارتی پرواز میں جزوی طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
مناسب مقدار میں سولارِس فیول تیار کرنے کے بعد اسے ساؤتھ افریکن ایئرلائن کے ایک مسافر بردار طیارے میں جزوی طور پر بھرا گیا جس نے گزشتہ ماہ 300 مسافروں کے ساتھ جوہانس برگ سے کیپ ٹاؤن تک کامیاب پرواز کی۔ پہلی کامیابی کے بعد بوئنگ کارپوریشن کا کہنا ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں اس ایندھن کا استعمال بتدریج بڑھائے گی تاکہ جیٹ ایندھن پر انحصار کم سے کم کیا جاسکے۔
واضح رہے کہ وہ ایندھن جو کسی جاندار (یعنی پودے، جانور یا جرثومے) کے وجود کو مکمل یا جزوی طور پر یا جانداروں سے خارج شدہ حیاتیاتی مادّے استعمال کرتے ہوئے مصنوعی طور پر تیار کیا جائے اسے سائنسی زبان میں ’’حیاتی ایندھن‘‘ (بایو فیول) کہتے ہیں۔ ویسے تو حیاتی ایندھن میں بایو الکحل، پروپینول، گرین ڈیزل اور بایو گیس سمیت درجن بھر سے زیادہ اقسام کے ایندھن شامل ہیں مگر ان میں حیاتی ڈیزل (بایو ڈیزل) کو زیادہ شہرت حاصل ہے۔
جیٹ ایندھن سیسے سے پاک کیروسین یعنی مٹی کے تیل (جیٹ اے ون) یا نیفتھا اور کیروسین کے آمیزے (جیٹ بی) پر مشتمل ہوتا ہے۔ سولارِس فیول میں ایک طرف جیٹ ایندھن کی تمام خوبیاں موجود ہیں تو دوسری طرف اس کے فروغ سے تمباکو کے کاشتکاروں کو بہت فائدہ ہوگا۔