ایمز ٹی وی (مانیٹرنگ ڈیسک) ایک اہم تجربے میں ماہرین نے دو بندروں کے دماغ میں ایک برقی آلے کا پیوند لگایا جس کے بعد وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔ اس آلے کو نیورل انٹرفیس کہا جاسکتا ہے جو دماغ کے شکستہ حصے اور ٹانگوں کے سگنل کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے اوروہ بھی وائرلیس کے ذریعے، جب کہ وقت ضائع کیے بغیر دماغ کے سگنل پوری ٹانگ تک بھیجتا ہے۔ یہ سسٹم دماغی سرگرمی ( ٹانگ چلانے کے حکم) کو نوٹ کرکے اس کی معلومات لمبر اسپائنل کورڈ تک بھیجتا ہے جو جانور کی چوٹ کے نیچے موجود تھا۔
سائنسدانوں نے برقی پیوند چلنے پھرنے کے لیے معذور بندروں کے دماغ کے اس حصے میں لگایا جو ہمارے چلنے پھرنے کو کنٹرول کرتا ہے اور اس جگہ کو ’’موٹر کارٹیکس‘‘ کہا جاتا ہے اس کے لیے بندروں کو کسی قسم کی کوئی تربیت نہیں دی گئی تھی۔ آلہ لگانے کے صرف 6 دن بعد ہی بندر باآسانی چلنے لگے اور ماہرین پرامید ہیں کہ انسان اور بندروں کی جسمانی مماثلت کی بنا پر یہ عمل انسانوں کے لیے بھی یکساں مفید رہے گا۔ اس کے بعد حرام مغز ( اسپائنل کورڈ) میں چند وولٹ کی بجلی دی گئی اور اعصابی خلیات نے ٹانگوں کے اہم پٹھوں کو ہلایا۔ اس سے پہلے ایک اور متاثر ہونے والے مریض کی سوچ سے روبوٹک بازو کو ہلانے کے کامیاب تجربات کیے جاچکے ہیں۔
ٹانگوں کے پٹھوں کو تحریک دینا ایک مشکل ترین اور پیچیدہ عمل ہے جس میں کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ امید ہے جب تک اسے انسانوں پر آزمانے کی اجازت ملے گی اس وقت تک اس میں مزید بہتری آئے گی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سالانہ ڈھائی سے 5 لاکھ افراد اسی مرض کےتحت اپاہج ہوجاتے ہیں ان میں اکثر افراد حادثات کے شکار ہوتے ہیں۔
سوئس فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں نے یہ نظام بنایا ہے اور اس کے لیے رہیسس بندروں کو معذور کیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق انسانوں پر آزمائش ابھی دور ہے کیونکہ مزید تجربات اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ یہ تحقیقی کام چین میں ہوا ہے لیکن اس کے معیارات کی منظوری یورپی تجربہ گاہوں نے دی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اس طریقے کو چوہوں کی بجائے بندروں پر آزمایا گیا ہے اور وہ انسانوں کے قریب ہوتے ہیں اس لیے اس کی انسانوں پر آزمائش ممکن ہے۔ واضح رہےکہ امریکا اور یورپ میں قانون سازی اور حقوق کی تنظیموں کی وجہ سے بندروں پر تحقیق مشکل سے مشکل ہوتی جارہی ہے لیکن چین میں اس پر کوئی پابندی نہیں۔