اتوار, 24 نومبر 2024


کا ئنات کا پہلا گول ستارہ دریافت

 

ایمز ٹی وی ( ٹیکنا لوجی) ماہرینِ فلکیات کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے ’’آسٹروسیسمولوجی‘‘ نامی طریقہ استعمال کرتے ہوئے کائنات کا سب سے گول ستارہ دریافت کرلیا ہے جو زمین سے 5 ہزار نوری سال دور ہے یعنی اس سے آنے والی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں پانچ ہزار سال لگ جاتے ہیں۔

اس ستارے کو کیپلر خلائی دوربین نے دریافت کیا تھا یہ اپنے محور پر بہت آہستگی سے گردش کررہا ہے اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے یہ ’’مکمل کرے‘‘ (perfect sphere) کی شکل میں بھی ہے۔

یاد رہے کہ ستارے، سیارے اور سیارچے بظاہر بالکل گول ضرور نظر آتے ہیں لیکن وہ مکمل طور پر گول نہیں ہوتے کیونکہ اپنے محور پر (لٹّو کی طرح) گردش کی وجہ سے وہ اپنے استواء (درمیانی حصے) پر قطبین کے مقابلے میں زیادہ چوڑے ہوتے ہیں۔ یہ مثال ہمارے سورج، زمین اور چاند پر بھی صادق آتی ہے جو اپنی تیز رفتار محوری گردش کی وجہ سے استواء پر قدرے پھیلے ہوئے ہیں جب کہ قطبین پر نسبتاً پچکے ہوئے ہیں۔ نظامِ شمسی کے باقی سیاروں، سیارچوں اور کائنات میں دوسرے ستاروں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ یہ بات ایک سائنسی اصول کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ کسی ستارے، سیارے یا سیارچے کی محوری گردش جتنی زیادہ ہوگی وہ اپنے قطبین پر اتنا ہی زیادہ پچکا ہوا اور استواء پر اسی قدر پھیلا ہوا بھی ہوگا۔ اس کے برعکس وہ اپنے محور پر جتنی آہستگی سے گھوم رہا ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ ’’مکمل کرے‘‘ کی شکل میں بھی ہوگا یعنی قطبین اور استواء پر اس کا قطر تقریباً یکساں ہوگا۔ ’’کیپلر‘‘ نامی اس ستارے کی جسامت ہمارے سورج کے مقابلے میں دُگنی ہے لیکن اپنے محور پر گھومنے کی اس کی رفتار ہمارے سورج کے مقابلے میں صرف ایک تہائی (3 گنا کم) ہے۔ بتاتے چلیں کہ ہمارا سورج اپنے محور پر ایک گردش 27 دن میں پوری کرتا ہے۔

یونیورسٹی آف گوٹنجن، جرمنی کے ماہرین کی قیادت میں جاپان، متحدہ عرب امارات، امریکا اور برطانیہ کے سائنسدانوں پر مشتمل ایک عالمی تحقیقی ٹیم نے ’’آسٹرو سیسمولوجی‘‘ نامی تکنیک استعمال کرتے ہوئے اس ستارے سے آنے والی روشنی کا تجزیہ کیا اور اس میں محوری گردش کی رفتار معلوم کی تو پتا چلا کہ یہ تقریباً 81 دنوں میں اپنے محور پر ایک پورا چکر لگاتا ہے۔

اس کے اوسط قطر کو دیکھتے ہوئے (جو 30 لاکھ کلومیٹر ہے) ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ گردشی رفتار عملاً بہت ہی کم ہے جس کی وجہ سے اس کے قطبین اور استواء کے درمیان قطر کا فرق صرف 6 کلومیٹر ہے۔ سورج اگرچہ جسامت میں اس سے نصف ہے لیکن وہ بھی اپنے استواء پر قطبین کے مقابلے میں 20 کلومیٹر زیادہ چوڑا ہے۔ زمین کی بات کریں جو تقریباً 24 گھنٹوں میں اپنی ایک محوری گردش مکمل کرتی ہے تو استواء پر اس کا قطر بھی قطبین کے مقابلے میں 42 کلومیٹر زیادہ ہے۔

ان تمام معلومات کو مدنظر رکھتے ہوئے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کیپلر اب تک دریافت ہونے والا ’’سب سے گول‘‘ (most spherical) قدرتی جسم بھی ہے۔ البتہ ان کا کہنا ہے کہ اس کے اتنے زیادہ گول ہونے کی وجہ صرف اور صرف اس کی سست رفتار محوری گردش کو قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ شاید اس کے قلب (کور) سے پیدا ہونے والے مقناطیسی میدان کا بھی اس میں کچھ نہ کچھ کردار ضرور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شاید اس ستارے کا قلب اور بیرونی پرتیں ایک دوسرے سے لاتعلق رہتے ہوئے گردش کررہی ہیں لیکن ابھی اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment