ایمز ٹی وی (مانیٹرنگ ڈیسک) اس وسیع و عریض میدان میں بنے اسٹینڈ ملکی و غیر ملکی معززین سے بھرے ہوئے تھے۔چینی شہر، ژوہوئی (zhuhai)میں واقع اس میدان میں چین کا سب سے بڑا ایئرشو، ایئر شو چائنا منعقد ہورہا تھا۔ اس میں پاکستان و چین کا تیار کردہ لڑاکا طیارہ جے۔17 بھی شریک تھا۔ اچانک فضا زبردست گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھی۔ یہ اتنی زوردار تھی کہ میدان کے باہر کھڑی کاروں کے الارم بج اٹھے۔ یوں چین کے پہلے اسٹیلتھ لڑاکا طیارے، J-20 کی آمد کا اعلان خوب زور و شور سے ہوا۔ یہ طیارہ بھی چینی کمپنی، چنگدو ایئروسپیس کارپوریشن کا تیار کردہ ہے جس کے اشتراک سے پاکستان نے جے۔17 تخلیق کیا۔ جے۔20 جدید ترین آلات اور ٹیکنالوجی کا مرقع ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ چینی سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی مہارت تامہ حاصل کرچکے۔ ماضی میں افیونی کہلائے جانے والے چینیوں نے پہلے معاشی ترقی پر دھیان دیا اور آج وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے مالک ہیں۔ جب معاشی ترقی کا پہیہ چل پڑا، تو وہ اربوں روپے اپنے شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی پر لگانے لگے۔ چناں چہ آج سرگرم ومتحرک چینی اس شعبے میں اتنی زیادہ ترقی کرچکے کہ نت نئے ہتھیاروں کے علاوہ انسان دوست اور مفید ایجادات بھی بنا رہے ہیں۔ اسلحہ سازی میں چینیوں کی بڑھتی جدت پسندی اور تخلیق کاری پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے۔ ہم طویل عرصہ امریکی ہتھیاروں پر انحصار کرتے رہے، مگر اب امریکا بھارت سے بڑھتی قربت کے باعث ہمیں جدید اسلحہ فروخت کرنے کے موڈ میں نہیں۔ لہذا ہوا کا بدلتا رخ دیکھ کر پاکستان بھی جدید اسلحہ خریدنے کے لیے چین، روس، ترکی، سویڈن وغیرہ کی جانب متوجہ ہے۔پچھلے چند برس کے دوران خصوصاً چین وطن عزیز کو اسلحہ فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ۔
ماضی میں چینی ماہرین عموماً روسی ساختہ اسلحے کی نقل تیار کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ وہ امریکی ساختہ اسلحے کی نقول بھی تیار کرنے لگے۔ عام خیال یہ تھا کہ چینی نقول اصل کے مطابق پائیدار اور کارگر نہیں ہوتیں تاہم کام چل جاتا ہے۔ لیکن یہ صورت حال خاصی حد تک تبدیل ہوچکی۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت پانے کے بعد چینی ماہرین اب ایسا جدید ترین اسلحہ بنارہے ہیں جو مشین و پرزہ جات کی پائیداری، فنی ٹیکنالوجی اور کارکردگی میں امریکی و روسی اسلحے سے برتر نہیں تو ہم پلہ ضرور ہے۔ اس کی بہترین مثال جنگی طیارہ جے۔20 ہے۔
چین کے عسکری نظریات کا محور جارح پسندی نہیں اپنا دفاع کرنا ہے۔ چینی ہر لحاظ سے طاقتور ہونے کے باوجود مغربی ممالک کے برعکس کسی ملک کو نظریاتی یا عسکری طور پر اپنی نو آبادی نہیں بنانا چاہتے۔ مگر ان کی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنا دفاع مضبوط سے مضبوط تر بنادیں تاکہ دشمن بھی محتاط رہے۔اور اب چین کی دفاعی ضروریات تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔
چین بحیرہ جنوبی چین کے بیشتر رقبے کی ملکیت کا دعوی دار ہے۔ تاہم امریکا، جاپان، آسٹریلیا اور ویت نام اس کی ملکیت کو چیلنج کررہے ہیں۔چناںچہ اس علاقے میں دونوں بڑی طاقتوں کے تصادم کا خطرہ بڑھ چکا۔خاص طور پہ اکلوتی سپرپاور، امریکا دنیا بھر میں چین کے بڑھتے اثرورسوخ سے خائف ہے۔ لہٰذا وہ چین کے خلاف خفیہ سازشیں شروع کرچکا۔اب جنگجو ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد صدارت میں دونوں قوتوں کے مابین تصادم کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ امریکی بھارت کو بھی چین کے خلاف بنے اتحاد میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اس بدلتی صورتحال نے چینی حکمرانوں کو متوحش کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے، پچھلے چند برس سے چین اپنے جنگی اخراجات میں مسلسل اضافہ کررہا ہے اور چینی کمپنیاں تیزی سے جدید ترین اسلحہ بنانے لگی ہیں جن میں طیارہ بردار جہاز،جنگی طیارے، میزائل، ڈرون، ٹینک اور توپیں شامل ہیں۔ چین کی بڑھتی عسکری طاقت کا نیا مظہر جے۔20 یکم نومبر کو ایئرشو چائنا میں دنیا والوں کے سامنے آیا۔
جب 1968ء میں چین اور سوویت یونین کے تعلقات میں دراڑ آئی، تو چینی مغربی ممالک سے اسلحہ خریدنے لگے۔ تاہم 1989ء میں تیاننمن اسکوائر مظاہروں کے بعد کئی مغربی ممالک نے بھی چین کو اسلحہ فروخت کرنے پر پابندی لگادی۔ تبھی چینی حکومت کو احساس ہوا کہ اگر اسے آزاد و خودمختار رہنا ہے تو اسلحہ سازی میں خود انحصاری کی راہ پر چلنا ہوگا۔ چناں چہ چینی حکومت سائنس و ٹیکنالوجی اور تحقیق کے شعبوں کو بہ سرعت ترقی دینے لگی۔ عمدہ معاشی ترقی کے سبب اس کے لیے ممکن ہوگیا کہ وہ کروڑوں ڈالر اس مد میں خرچ کرسکے۔
بیسویں صدی کے آخر میں اسٹیلتھ لڑاکا جہاز، جے۔20 کا منصوبہ شروع ہوا۔ نومبر 2009ء میں چینی فضائیہ کے کمانڈر، جنرل ویرونگ نے پیشن گوئی کی کہ 2017ء تک جے۔20 تیار ہوجائے گا۔ اس طیارے کی اولیّں تصاویر دسمبر 2010ء میں مغربی میڈیا میں شائع ہوئیں۔ اسی ماہ امریکی وزیر دفاع، رابرٹ گیٹس نے چین کا دورہ کیا۔ چناں چہ امریکی اخبار، نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا کہ جے۔20 کی نمائش کرکے چینی حکومت نے اپنی ’’مسلز پاور‘‘ دکھائی ہے۔
جے۔20 جنگی طیاروں کی پانچویں نسل (ففتھ جنریشن) سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ جدید ترین جنگی طیارے ہیں۔ نیز یہ پہلا اسٹیلتھ طیارہ ہے جو امریکا سے باہر کسی دوسرے ملک میں وجود میں آیا۔ یہ حقیقت عیاں کرتی ہے کہ شعبہ عسکریات سے منسلک چینی سائنس داں اور انجینئر تیزی سے امریکیوں کے درجہ کمال تک پہنچ رہے ہیں۔جدید ترین ٹیکنالوجی کا شاہکار، جے۔20 ایک بیش قیمت طیارہ ہے۔ ہر طیارہ کی تیاری پر تقریباً بارہ کروڑ ڈالر (سوا بارہ ارب روپے) خرچ ہوتے ہیں۔ اس میں دو جیٹ انجن نصب ہیں جن کی بدولت یہ بھاری بھرکم ہونے کے باوجود برق رفتاری سے سفر کرتا ہے۔
امریکہ کے فضائی بیڑے میں تین اسٹیلتھ طیارے… ایف۔35 ،ایف۔22 اورB-2 Spirit شامل ہیں۔ ان میں سے ایف۔35 جدید ترین ہے۔ ماہرین عسکریات کی رو سے جے۔20 صلاحیتوں اور کارکردگی میں ایف۔22 ریپٹر کے ہم پلہ ہے۔ ماہرین اب سرگرمی سے تینوں طیاروں کا باہمی موازنہ کرنے میں مصروف ہیں۔بہرحال اس چینی طیارے کی دل دہلا دینے والی اڑان امریکی حکمران طبقے میں تشویش کی لہر دوڑا چکی۔وہ جان چکے کہ اب بحرالکاہل میں ان کی عسکری اجارہ داری ختم ہونے کے دن قریب آ پہنچے۔
وطن عزیز کے لیجنڈری پائلٹ، ایم ایم عالم نے ایک بار کہا تھا: ’’فضا میں دشمن سے جنگ کرنا اپنی آزادی برقرار رکھنے کا ذہانت بھرا طریقہ ہے۔‘‘ یہ قول دور جدید کی جنگ و جدل میں فضائیہ کی اہمیت اجاگر کرتا ہے۔ جدید ترین جنگی طیاروں سے لیس فضائیہ کسی بھی حملہ آور کے دانت کھٹے کرسکتی ہے۔
پاک فضائیہ فی الوقت ایف۔16 (تعداد 76) اور جے ایف۔17 (100 سے زائد) پر انحصار کرتی ہے۔ یہ فورتھ جنریشن کے جنگی طیارے ہیں۔ان طیاروں کے باعث وہ ابھی استعداد و کارکردگی میں بھارتی فضائیہ کے ہم پلہ ہے۔ مگر بھارتی حکومت نت نئے جنگی طیارے خریدنے اور تیار کرنے پر اربوں روپے خرچ کررہی ہے لہٰذا پاکستان نے اپنی فضائیہ کو اپ گریڈ نہ کیا، تو مستقبل قریب میں بھارتی فضائیہ ہم پر حاوی ہوسکتی ہے۔ بھارت کی جانب جھکاؤ کے باعث اب امریکا، برطانیہ اور فرانس سے جدید طیارے ملنا محال ہوتا جا رہا ہے۔ روس بھارت کے اشتراک سے ایک اسٹیلتھ طیارہ بنارہا ہے۔ چناں چہ وہ پاکستان کو پانچویں نسل کے طیارے فروخت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ گو عالمی تبدیلیوں کے سبب روس اور بھارت کی دوستی سرد مہری میں بدل جائے، اسلحہ بھی وسیع پیمانے پر خریدے گا۔
گویا پاکستان صرف اپنے دیرینہ دوست چین سے ففتھ جنریشن کے جدید طیارے خرید سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے، ماضی قریب میں پاکستان چینی حکومت سے جے۔20 خریدنے کی خواہش ظاہر کرچکا۔ یاد رہے، بھارت مقامی طور پر ایک اسٹیلتھ طیارہ،HAL AMCA تیار کررہا ہے۔ لہٰذا بھارتی فضائیہ کے ہم پلہ رہنے کی خاطر پاکستان کو اگلے دس سال میں لامحالہ ففتھ جنریشن کے جنگی طیارے خریدنے ہوں گے۔ پاکستانی ماہرین عسکریات اپنی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کم از کم ’’چھتیس‘‘ جے۔20 خریدنے کے لیے چین سے معاہدہ کرلے۔ جے۔20 طویل فاصلے تک مار کرنے والا فائٹر (لڑاکا) طیارہ ہے۔ چین ایک ملٹی رول (کثیر استعمال والا) اسٹیلتھ طیارہ جے۔31 بھی تیار کررہا ہے۔ یہ بھی ففتھ جنریشن سے تعلق رکھتا ہے۔ ماہرین عسکریات کا کہنا ہے کہ اگلے دس برس میں پاک فضائیہ کے پاس جے۔20 کے دو تین اسکواڈرن، جے۔31 کے سات آٹھ سکواڈرن، جے ایف۔17 بلاک تین اور چار کے بیس سے زائد اسکوڈرن اور ایف۔16 کے تین چار اسکواڈرن ہونے چاہئیں۔ یہ ایف۔16 ترکی میں بلاک پانچ تک اپ گریڈ کرا لیے جائیں تو بہتر ہے۔ ان جنگی جہازوں کی مدد سے پاک فضائیہ دشمن کا بھر پور مقابلہ کرسکے گی۔ (واضح رہے، ایک اسکواڈرن 12 سے 24 طیاروں پر مشتمل ہوتا ہے)۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جے ایف۔17، جے۔31 اور جے۔20… تینوں طیاروں کے نظام کو دو طرفہ ڈیٹالنک سے منسلک کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر دشمن سے جنگ ہوئی، تو پاکستانی اسٹیلتھ طیارے آگے اڑ کر اپنے جدید ترین ریڈاروں اور سینسروں کی مدد سے دشمن کی تنصیبات کا پتا لگائیں گے۔ یہ معلومات پھر بذریعہ ڈیٹا لنک جے۔17 طیاروں کو دی جائے گی۔ تب جے۔17 تنصیبات تباہ کرنے کی خاطر میزائل چھوڑیں گے۔ اسٹیلتھ طیارے ڈیٹا لنک کے ذریعے ہی ان میزائلوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول حاصل کرلیں گے تاکہ انہیں درست نشانے پر گراسکیں۔ یوں پاک فضائیہ کے لیے اسٹیلتھ اور ملٹی رول طیاروں کا مرکب یا کمبی نیشن بہت سود مند ثابت ہوگا۔ دوران جنگ اگر ایک حریف چپکے سے اپنے دشمن کے سر پر جاپہنچے، تو یقینا وہ حواس باختہ ہوجائے گا۔ اسٹیلتھ طیارہ مختلف طریقے سے یہی کام انجام دیتا ہے۔ ان طریقوں کو مجموعی طور پر ’’اسٹیلتھ ٹیکنالوجی‘‘ کا نام دیا گیا۔ یعنی ایسی ٹیکنالوجی جو ایک جنگی جہاز کو دشمن کے ریڈاروں پر نمودار ہونے سے حتی الامکان روک دیتی ہے۔ اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کا پہلا راز جنگی جہاز کا ڈیزائن ہے۔ وہ اس خصوصی طریقے سے بنایا جاتا ہے کہ دشمن کے ریڈار سے خارج ہونے والے سگنل جہاز سے ٹکرا کر کسی اور طرف مڑ جائیں، واپس اس جگہ نہ جائیں جہاں ریڈار نصب ہے۔ اس سلسلے میں جہاز کی تیاری میں ایسا میٹریل بھی استعمال ہوتا ہے جو ریڈار کے زیادہ سے زیادہ سگنل جذب کرلے۔ اسٹیلتھ طیارے میں انجن سے اٹھنے والی گرمائش چھپانے کے لیے اسے ٹھنڈا رکھنے کا نظام لگایا جاتا ہے۔ لہٰذا اس سے انفراریڈ شعاعیں بھی خارج نہیں ہوتیں۔ اس طیارے کو دیکھنا بھی کٹھن مرحلہ ہے کہ وہ مکمل طور پر سیاہ ہوتا ہے۔ نیز اسے عموماً رات کو اڑایا جاتا ہے۔ آواز کی لہروں سے بھی ان خصوصی طیاروں کو شناخت کرنا مشکل ہے۔ وجہ یہ کہ یہ سپرسونک نہیں ہوتے۔ پھر ان میں ’’آفٹر برنر‘‘ بھی عنقا ہوتے ہیں۔ مزید براں عموماً یہ زمین سے قریب تر رہ کر پرواز کرتے ہیں تاکہ ارضی رکاوٹیں مثلاً پہاڑ، بلند درخت، عمارتیں وغیرہ ان کی آڑ بن جائیں۔ اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کی بنیاد دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن سائنس دانوں نے رکھی تھی۔ حتیٰ کہ انہوں نے ’’ہورٹن ہو 229‘‘ نامی دنیا کا پہلا اسٹیلتھ طیارہ بنالیا۔ تاہم اسے دوران جنگ محاذ پر نہیں بھیجا جاسکا۔ بعدازاں جرمنوں کی تحقیق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکیوں نے اسٹیلتھ طیارے تیار کرلیے۔ فی الوقت امریکا، روس، چین اور بھارت کے علاوہ ترکی، ایران اور سویڈن بھی اسٹیلتھ طیارے بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ اپنی فضائی فوج کو طاقتور بنا سکیں۔