ھفتہ, 23 نومبر 2024


سندھ بلڈ ٹرانسفیوڑن اتھارٹی خون کی کمی کے مسائل حل کرنے میں ناکام

ایمز ٹی وی (صحت /کراچی ) سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی اپنے قیام کے20سال گزرنے کے باوجود صوبے میں خون کی کمی کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے۔ اتھارٹی کے تحت غیر محفوظ انتقال خون کو روکا جاسکا ہے نہ ہی نایاب و کمیاب خون فراہم کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی مرتب کی جاسکی ہے۔ جس کے باعث مریضوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہےبالخصوص حادثات وواقعات میں خون نہ ملنے پر سالانہ سیکڑوں افراد اپنی زندگیاں ہار جاتےہیں۔ جمعرات 16فروری کو بھی درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر ؒ میں ہونے والے خود کش دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کو خون کے سلسلے میں پریشانی کاسامنا کرنا پڑا تھا۔ صوبے میں بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کا قیام1997میں عمل میں آیا تھا لیکن اتھارٹی آج تک صوبے کے باسیوں کے بلڈ گروپس کی ڈائریکٹری قائم نہیں کر سکی۔ ماہرین صحت بتاتے ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک میں شہریوں کے خون کے گروپس کا ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے اورایک ڈائریکٹری بنائی جاتی ہے جس میں ان کے خون کے گروپس کے ساتھ موبائل نمبر، دفاترا ورگھروں کے پتے درج ہوتے ہیں۔ جب کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے یا خون کی ضرورت پڑتی ہے تو اس ڈائریکٹری سے مدد لی جاتی ہے اور قریب ترین رہنے والے افراد سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ پھر جدید ایمبولینس شہریوں کے پاس جاکر خون لیتی ہے اس طرح ہر گروپ کے خون کی ضرورت پڑ نے پر مریضوں کو پریشانی نہیں ہوتی اور باآسانی خون دستیاب ہو جاتاہے۔ لیکن سندھ میں تاحال ایساکوئی نظام وضع نہیں کیا جاسکانہ ہی سینٹرالائزڈ بلڈ بینکنک کا نظام وضع ہوسکاہے حالانکہ 2012میں 4ریجنل بلڈ ٹرانسفیوژن سینٹرز کی تعمیر شروع ہوئی تھی جن کی گزشتہ سال تکمیل کے باوجود انہیں فعال نہیں کیا جاسکا۔ جس کے باعث حادثات وواقعات میں زخمیوں کے خون کےلئے اپیل کی جاتی ہے۔ صوبے میں غیر محفوظ انتقال خون کی منتقلی کو بھی نہیں روکا جا سکا اور اب تک درجنوں افراد ایڈز میں مبتلا ہوچکے ہیں جبکہ درجنوں بچے ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہوئےہیں۔ لیکن صوبائی محکمہ صحت اتھارٹی کو فعال کرنے اور اتھارٹی اس ضمن میں خاطر خواہ اقدامات کرنے سے قاصر ہے۔ اس سلسلے میں سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کے سیکریٹری ڈاکٹر زاہد حسن انصاری کا کہنا تھا کہ جب نایاب وکمیاب خون کی ضرورت پڑتی ہے تو بڑے بلڈ بینکس سے حاصل کر لیا جاتا ہےاور اس کے لئے کیمپس بھی لگائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں عنقریب ریجنل بلڈ ٹرانسفیوژن سیٹرز کو فعال کر دیا جائے گاجس کے ساتھ بلڈ گروپس کی ڈائریکٹری بھی بنائی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں غیر معیاری بلڈ بینکس کے خلاف کاروائی بھی کی جاتی ہے۔ عنقریب یہ تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment