ایمز ٹی وی(مانیٹرنگ ڈیسک) سویڈن میں چامرز یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اور سلگرینسکا یونیورسٹی ہاسپٹل کے ماہرین نے ایک ایسا ہیلمٹ بنایا ہے جو مائیکرو ویوز خارج کرکے فوری طور پر بتاتا ہے کہ سر کے کس حصے میں چوٹ لگی ہے اور عین کس مقام سے خون نکل رہا ہے۔
چھوٹے پیمانے کی ایک آزمائش کے بعد معلوم ہوا ہے کہ دماغ کی اندرونی چوٹوں کے درست مقام کا تعین کرنا ایک مسئلہ ہوتا ہے اور اس کے لیے خرد امواج یعنی مائیکرو ویوز سے زخم اور خون کا رساؤ کی جگہ معلوم کی جاسکتی ہے۔
سلگرینسکا یونیورسٹی ہاسپٹل کے ڈاکٹر جوہان ہونگوسٹ اور ان کے ساتھیوں نے ایک ’مائیکروویو‘ ہیلمٹ بنایا ہے جو حادثے کے بعد دماغی چوٹوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ چھوٹے پیمانے پر استعمال کے بعد معلوم ہوا کہ ایمبولینس میں اس ہیلمٹ کا استعمال دماغی چوٹ کا اندازہ لگانے میں مددگار ثابت ہوتا اور اس سے فوری علاج میں مدد ملتی ہے۔ اس سے قبل ان کی ٹیم دماغ میں خون کے لوتھڑے بننے اور اندرونی طور پر خون بہنے (ہیموریج) کے درمیان فرق کو اسی طریقے سے معلوم کرچکی ہے۔
حادثات میں دماغی چوٹیں (ٹرامیٹک برین انجریز) فوری طور پر جان لیوا، تکلیف دہ اور عمر بھر کی معذوری کی وجہ بن سکتی ہے۔ بعض چوٹیں ہلکی، کچھ درمیانی اور بعض شدید اور جان لیوا ہوتی ہیں۔ اس ہیلمٹ میں تین حصے ہیں جس میں ایک مائیکرویو اینٹینا ہے جو مریض کے سر پر لگایا جاتا ہے، ایک سگنل جنریٹر ہے جو لہریں خارج کرتا ہے اور ایک کمپیوٹر جو اس سارے سسٹم کو کنٹرول کرتا ہے۔ دماغ سے حاصل ہونے والا ڈیٹا ایک الگورتھم (پروگرام) میں جاتا ہے جہاں معلومات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
اینٹینا دماغ کے اندر لہریں خارج کرتا ہے جو کھوپڑی میں پہنچ کر مغز سے ٹکراکر واپس آتی ہے۔ پھر کمپیوٹر تفصیل سے جائزہ لے کر دماغ کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کا اندازہ لگاتا ہے۔ اس سے قبل صحت مند دماغوں کا جائزہ لے کر اس کا ڈیٹا سافٹ ویئر کے اندر داخل کیا گیا ہے۔
ہیلمٹ کے ذریعے 20 ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا جنہیں دماغی چوٹ لگی تھی جبکہ کچھ کو بعد میں ہسپتال میں داخل بھی کیا گیا۔ ان مریضوں کا سی ٹی اسکین بھی کیا گیا اور اس کا موازنہ ہیلمٹ ڈیٹا سے کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر ہیلمٹ نے دماغی چوٹ کی صورت میں ’ہیماٹوما‘ کہلانے والی کیفیت کو 100 فیصد حساسیت اور 75 فیصد خصوصیت کے ساتھ تشخیص کرلیا۔
اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا کہ غلطی سے یہ 25 فیصد کیسز میں دماغی چوٹ دکھاتا ہے جبکہ چوٹ نہیں ہوتی۔ اب ماہرین اس ہیلمٹ کو مزید ممالک کی بڑی آبادی پر آزمانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔