ھفتہ, 23 نومبر 2024


پودوں کے بھی کان ہوتے ہیں

 

ایمزٹی وی (مانیٹرنگ ڈیسک) پانی زندگی ہے اور پودے ان تک پہنچنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ لیتےہیں یعنی پودے اور جاندار خود کو پانی کی تلاش کے لیے تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ یہ تحقیق ایک ریسرچ جرنل اوئکولوگیا میں شائع ہوئی ہے۔ لیکن ماہرین اس کا جواب نہیں دے سکے کہ آخر یہ سارا عمل کس وجہ سے ہوتا ہے۔ پودے کیڑوں کی بھنبھناہٹ، سنڈیوں کے پتے کھانے کی آواز اور درختوں میں سیٹیاں بجاتی ہوئی ہواؤں کےلیے بھی کان رکھتے ہیں۔ اس تحقیق سے یہ معمہ حل ہوگیا ہے کہ آخرخشک ترین علاقوں میں بھی پودے ، شجر اور گھاس پھوس کس طرح پانی تلاش کرکے زندہ رہتے ہیں۔ اس کے لیے یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے ماہر مونیکا گیگلیانو اور ان کے ساتھیوں نے مٹر کے پودے کو ایک ایسے گملے میں الٹے لگائے جو انگریزی حروف وائے کی شکل کے تھے۔ گملے کا ایک سرا پانی میں اور دوسرا خشک مٹی میں رکھا گیا ۔ معلوم ہوا کہ پلاسٹک میں لپیٹنے اور چھپانے کے باوجود بھی پودے کی جڑیں پانی کی جانب مڑیں گویا انہیں معلوم تھا کہ اس طرف پانی ہے اور پانی بھی پلاسٹک کے پانی میں بند تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جڑیں بہنے والے پانی کی صرف آواز ہی سن رہی تھیں۔ اس تحقیق سے سائنسداں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب پودوں کے قریب آبی بخارات نہ ہوں اور پانی بہت دور بہہ رہا ہو تو وہ صرف اس کے بہنے کی ہلکی آواز سے پانی کو پہچان لیتےہیں۔ پانی سے قریب موجود پودے اس کی آواز کی بجائے اس کی نمی کو محسوس کرکے اپنی جڑوں کو اس جانب سرکاتے ہیں لیکن ان میں پانی سے ہونے والے معمولی ارتعاش کو پہچاننے کی سہولت بھی ہوتی ہے۔ اس سے قبل 2014 میں یونیورسٹی آف میسوری کے سائنسدانوں نے معلوم کیا تھا کہ پودے اردگرد کی آوازیں مثلاً کھانے اور کترنے کی آوازیں سن سکتے ہیں اور اس خطرے کا احساس کرسکتے ہیں۔ ان آوازوں کو محسوس کرکے پودے اپنے دفاعی نظام کو مزید بہتر بناتے ہوئے خاص کیمیکل خارج کرتے ہیں تاکہ وہ ان کے دشمن کیڑوں مثلاً سنڈیوں ( کیٹرپلر) کو دور بھگاسکیں۔

 

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment